مجھے زندگی سے بیشمار شکایتیں تھیں کہ زندگی کتنی تلخ اور خراب ہے اور یہ ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں کرتی ہے کہ ہم سے ہی سب چھین لیتی ہے کبھی ہمارے اپنے اور کبھی ہماری خواہشیں۔ ہمارا پروجیکٹ تھا کہ ہمیں اداروں کا وزٹ کرنا ہے اور ان کے پیچھے کی کہانی کو ڈسکور کرنا ہے تو پروفیسرصاحب ہمیں نجانے کہاں لے آئے تھے جہاں آنے جانے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ہر طرح کے لوگ آ اور جا رہے تھے۔ ہم نے جو پروفیسر صاحب سے پوچھا کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں تو کہتے ہیں کہ تمھیں ان سے ملانے لایا ہوں زندگی جن سے ناراض ہے مگر وہ پھر بھی اسے راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
2015کو جب اسلام آباد گیا تو یہ شہر میرے لیے بالکل ہی انجا ن تھا۔ آدمی جب بھی دوسرے شہر چلا جاتا ہے تو شہر اس کے لیے بیگانہ ہوجاتا ہے وہاں کے لوگ، وہاں کا ماحول، یہاں تک کہ وہاں کا آب و ہوابھی۔ لیکن مجھے وہاں جلد ہی گھل ملنے کا موقع مل گیا رہائش کے لیے ہاسٹل تھے اور ہاسٹل کا معقول کرایہ مجھے وہاں رہنے کا موقع فراہم کر گیا۔ ہاسٹل کے قریب ایک ہوٹل تھا ’’کیفے کوئٹہ‘‘ کے نام سے۔۔ ہوٹلوں کے حوالے سے آپ جہاں بھی چلے جائیں کوئٹہ کا نام بہت زیادہ بکتا ہے اور ہوٹل مالک سے لے کر وہاں کام کرنے والے سبھی کوئٹہ یا دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں۔
کسی کے جسم پر کوئی کٹ لگ جائے اور اس حصے سے خون بہنا شروع ہوجائے تو خون کو روکنے کے لیے کیا کیا جائے ۔ماضی میں گھریلو ٹوٹکے استعمال میں لائے جاتے تھے ،کوئلہ پیس کر کٹ والی جگہ پر لگا لیا خون تو بند ہوا مگر کوئلے کی سیاہی عمربھر کے لیے اپنا داغ اس حصے پر چھوڑ جاتا۔ کسی کے مسلز میں کچھاؤ آجاتا یا کوئی گر کر زخمی ہوجاتا تو ہلدی اور سرسوں کا تیل ملا کر اس حصے کو مالش کیا جاتا تب کہیں جا کر افاقہ ہوتا۔
کینسر سے متاثرہ افراد کے لئے اکثر ہم ایسے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں جس سے وہ ہمت پکڑے اور موت سے پہلے موت کے منہ میں نہ جائے۔ لیکن ہم اِن الفاظ کا چناؤ کرکے اپنا حق ادا کرتے ہیں اور کینسر زدہ شخص صر ف مسکرا کر رہ جاتا ہے ، اُس کی مسکراہٹ کو دیکھ کر ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے الفاظ کارگر ثابت ہوگئے ہیں لیکن اُ س بیمار شخص کو پتا ہوتا ہے کہ وہ روز بہ روز زندگی کی خاتمے کی طرف جارہا ہے ۔
ہمارے ہاں گمان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ کتابوں کا دور ہی ختم ہو گیا۔ کتاب پڑھنے والے کم رہ گئے ۔ سوچتا ہوں کہ اگر کتابیں پڑھنے والے کم ہی رہ گئے ہیں توکتابیں اتنی حساب سے مارکیٹ میں آ کیوں رہی ہیں۔ دراصل ہم بیٹھے بیٹھے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ دور ختم ہوا وہ دور شروع ہوا۔ رخ اور انداز ضرور بدل گئے مگر سلسلے ختم نہیں ہوئے بلکہ چل رہے ہیں۔
دو بڑی سیاسی جماعتیں جو اب اپوزیشن میں ہیں اور باری باری حکمرانی کرتی رہی ہیں نیب آرڈیننس میں ترمیم نہ کرنے کی اپنی سنگین غلطی پر کف افسوس مل رہی ہوں گی۔شاید یہ غلطی دانستہ کی گئی کیونکہ پی پی پی اور پی ایم ایل(این)کی قیادت نیب کے آج کے انتہائی طاقت ور قانون کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے برقراررکھنا چاہتی تھی۔ا نھوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ قانون عمران خان کی حکومت کی طرف سے،جو خود کو کرپشن کا صفایا کرنے کی چیمپئن کہتی ہے ،اُن کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔
وھیل کی موت واقع ہوئی۔۔ ہاں وھیل کی۔۔ آپ نے سنا نہیں۔۔ گوادر کے ساحل پر ملی لاش وھیل کی تھی۔۔ پانی کو اتنا بھی گوارا نہیں ہوا کہ وہ لاش کو زمین زادوں کے حوالے کرنے کے بجائے اپنے اندر سمو لیتا۔ اب کیا کیا جائے بھلا سمندر سے گلہ کون کرے اور گلہ بنتا بھی نہیں، سمندر کے اندر اتنا شور جو ہے کہ اسے کوئی اور شور سنائی نہیں دیتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ شور کی آلودگی سے مر گیا ہو۔ آہ۔۔۔ یہ شور کی آلودگی بھی۔۔ اب اس آلودگی کو کون سمجھائے کہ اس کی وجہ سے کتنے خاندان تکلیف میں ہیں اور نہ جانے کتنی جانوں کا زیاں ہو رہا ہے کہ آواز ذرا دھیما رکھے۔ مگر جسم پر یہ تشدد کے نشان کیسے۔۔ کیسی لاقانونیت ہے اب اس لاقانونیت سے سمندر بھی آزاد نہیں رہا۔ سمندر کے اندر نہ جانے اب کون کون سی خرافات جنم لے رہی ہیں کہ سانس لینے کی آزادی بھی دشوار ہو گئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان بلوچستان کے دورے پر پہلے کوئٹہ تشریف لے آئے۔ کوئٹہ کے باسیوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اور وہ گنجان آباد شہر سے دور پندرہ منٹ کی گرما گرم تقریر بطور لیکچر سناکر گوادر چلے گئے۔ تقریر کم تجاویز زیادہ تھے۔ ٹی وی پر نشر کی جانے والی تقریر میں وہ جام کمال کے معترف نظر آئے جبکہ چیف آف آرمی اسٹاف کے کارناموں کے پل باندھتے نظر آئے۔
جب کسی معاشرے میں انصاف مہنگا ہوجاتا ہے اور معاشرہ ذہنی پسماندگی کی سارے حدیں عبور کرلیتا ہے، جب غلط کو غلط کہنے اور سچ کا ساتھ دینے کی ہمت نہیں رہتی، تب ہمارے زوال کا سفر تیز تر ہوتا جاتا ہے۔اب تو شکر ہے کہ حا کمان وقت کسی بھی کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو سوشل میڈیا پر عوامی احتجاج سے اس سے اجتناب کرتے ہیں۔
بلوچستان کے سرحدی حدود میں واقع گولڈ اینڈ کاپر کمپنی سیندک پراجیکٹ جوکہ بلوچستان اور ضلع چاغی کی ترقی سے تعبیر ہے مگر حقیقتاً یہ ایک استحصالی پراجیکٹ ہے جو کہ ہمسایہ ملک چین کی شراکت سے جاری ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان شرکت داری سے چلنے والے اس پراجیکٹ سے مقامی آبادی کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا ، منافع میں چین کو 48 فیصد،پاکستان کو 50 فیصد اور 2 فیصد بلوچستان کو دیا جاتا ہے اور یہ 2فیصد بھی چینی کمپنی کے سی ایس ار فنڈز کے مد میں دی جاتی ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے پچاس فیصد میں سے ایک بھی فیصد بلوچستان سمیت ضلع چاغی کی تعمیر وترقی پر خرچ نہیں کی گئی ہے جوکہ اہل بلوچستان کے ساتھ سفاکانہ ظلم اور ناانصافی کے مترادف ہے۔