پولیٹکل انجنیئرنگ ایک تازہ اصطلاح ہے۔اس کی واضح ترین مثال ایم کیو ایم (پاکستان) اور پاک سر زمین پارٹی(پی ایس پی) کے درمیان محض چند گھنٹے تک برقرار رہنے والا عقد ہے۔دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے تسلیم کیا کہ اس شادی کا اہتمام اسٹیبلشمنٹ کے بعض کھلاڑیوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔
اٹھارہ اگست 2009 کا سورج جیسے ہی طلوع ہوا, روزنامہ آساپ صحافت کی آبیاری کرتا ہوا غروب ہو چکا تھا۔ سورج نے دوبارہ طلوع ہونا تھا۔ پر آساپ کی کرنیں مدھم پڑ چکی تھیں. بلوچستان ایک حقیقی صحافتی ترجمان سے محروم ہونے والا تھا۔ آساپ کی بندش سے قبل اخبار کے مالک کو جان سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ جان تو بچ گئی پر آساپ کو نہ بچا سکے ۔ یوں یہ اخبار صرف سترہ سال جی کر اٹھارہ اگست 2009 کو خالق حقیقی سے جا ملا۔۔ (انا للہ وان الیہ راجعون)۔ جان محمد دشتی لندن کو پیارے ہو گئے۔ آساپ کی جگہ ہسپتال نے لے لی۔ آساپ سے وابسطہ سو سے زائد ورکر بے روزگار ہو گئے۔
کراچی کی سیاست ہمیشہ سے مختلف رنگوں میں ڈھلا ہوا ملتا ہے کراچی شہر جس کو بار بار ملک کا معاشی حب قرار دیا جاتارہاہے، طویل دہشت کی رات ڈھلنے کے بعد اس کی رونقیں معمول پر آئیں تو ہر ایک اس کی روشنیاں واپس لانے کا کریڈٹ اپنے سر لینے کیلئے کوشاں رہا۔
پچھلے کئی دنوں سے قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ احتجاج کر رہے ہیں، شروع میں اْن کے تیرا مسائل تھے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ جو طلبہ یونیورسٹی نے غلط فہمیوں کی وجہ سے نکالے ہیں اْن کو بحال کریں۔
پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں مزدور روزگار کے حصول کے لیے مشرق وسطیٰ جاتے ہیں ۔یہ افراد ایجنٹوں کو لاکھوں روپے دیتے ہیں تاکہ خوشحال مستقبل کی ضمانت حاصل کرسکیں ،ان افراد کی پریشانیاں یہیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ مسائل اور پریشانیوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔متحدہ عرب امارات کی سب سے جدید ریاست دبئی کے ایئر پورٹ پر پاکستان سمیت دنیا بھر سے پروازیں پہنچتی ہیں۔
نیلسن منڈیلا نے کیا خوب کہا تھا کہ سیاست دان اگلے الیکشن جبکہ لیڈر نیو جنریشن کے لئیے سوچتا ہے۔۔ جب ہم بچے تھے تو الیکشن کے موسم میں سیاسی پارٹیوں کے جھنڈوں کو بڑے فخر سے اٹھا کر اپنے جھونپڑی نما گھر پر لگاتے تھے کیونکہ بچے تو غیر سیاسی ہوتے ہیں۔
کسی نظرئیے کی افزائش سالوں پر محیط ہوتی ہے یعنی ایک سوچ کو نظریہ بننے میں ایک طویل سفر درپیش ہوتا ہے ، یہ سفر کٹھن اور مشقت سے بھر پور ہوتا ہے اس سفر میں صبرکا دامن نہیں چھوٹتا یعنی یہ عمل بالکل کسی سونے کو کندن بننے کیلئے آگ کی بھٹی سے گزرنے سے مماثلت رکھتا ہے۔
گوادر سی پیک کا مرکز ہے پورٹ سٹی اور جغرافیائی لحاظ سے سینٹرل ایشیا کا تجارتی گیٹ وے بھی ہے۔نہ صرف بلوچستان کی سیاسی حلقوں کے لئے بلکہ ملکی سیاسی حلقوں کے لئے گوادر کی صوبائی نشست حلقہ پی بی 51نہایت اہم تصور کی جاتی ہے ۔
لیاری آج کچھ بھی سہی مگر کبھی کچھ اور ہوا کرتا تھا، ہر سمت بکھری رعنائیاں ہر نفس کو جینے کا جواز فراہم کرتی تھیں۔ آج جو کچھ ہم تصور نہیں کرسکتے کبھی وہاں حقیقت ہوا کرتی تھی۔