بلوچستان کی سیاسی صورتحال پاکستان میں وفاقی سیاست اور باقی ماندہ صوبوں سے قدرے مختلف ہے بلوچستانء کے سیاست، وزارت و مشاورت میں یہاں کے سرداروں نوابوں و دیگر قبائلی شخصیات کا کنٹرول عام آدمی سے زیادہ مظبوط اور مستحکم ہے۔ لیکن بنیادی طور پر بلوچستان کی اندرونی سیاست پر اثر و نظر وفاقی قوتوں کا کچھ زیادہ مظبوط دکھائی دیتا ہے۔
پنامہ سے لیکر اکامہ تک میاں صاحبان کو بد عنوانی کے داؤ نے پچھاڑ دیا. اسی صورتحال اور میاں صاحبان اور ن لیگ کی کمزور رگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی کے اہم پہلوان عمران خان نے ن لیگ سے کشتی لڑنے کے لیے بہت سارے داؤ پیچ سیکھے اور اکھاڑے میں اپنے رانوں کو تھپکی دیتے ہوئے پہنچ گئے۔
یہ لیاری کی کہانی ہے۔ایک تابناک اور شاندار ماضی کی، ایک درماندہ حال کی ، یہ ان شاندار روایات ، رسوم اور رواجوں کی کہانی ہے جن میں لیاری کی سماجی، ثقافتی اور سیاسی زندگی گندھی ہوئی تھی۔
26 دسمبر کے بعد لیاری کے حوالے سے ایک اور ایونٹ کی نوید آرٹس کونسل میں 26دسمبر کو ہی نازین بلوچ کی فلم’’لیاری اے پریزن ود آؤٹ وال‘‘کی اسکریننگ کے اختتام پر وحید نور صاحب نے سنادی تھی۔وحید نور صاحب نے رمضان بلوچ کی کتاب ’’ لیاری کی ان کہی کہانی‘‘ کی تقریب رونمائی میں شرکت کی دعوت بھی دی تھی۔ بے صبر ی سے 28 دسمبر کا انتظار تھا۔
بڑی مدت کے بعد لیاری میں ایونٹ کے حوالے سے کوئی دعوت نامہ ملا تھا دل میں حسرت بھی تھی اور نہ جانے کی ہچکچاہٹ بھی۔۔دل میں بار بار خیال آرہا تھا یار اتنے عرصے بعد ایک ایونٹ اور وقت شام سات بجے یعنی کے آرٹس کونسل جانے کیلئے ٹریفک جام کا امتحان پاس کرنے کیلئے آدھ سے ایک گھنٹے کا صبر بھی درکار ہوگا۔
پولیٹکل انجنیئرنگ ایک تازہ اصطلاح ہے۔اس کی واضح ترین مثال ایم کیو ایم (پاکستان) اور پاک سر زمین پارٹی(پی ایس پی) کے درمیان محض چند گھنٹے تک برقرار رہنے والا عقد ہے۔دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے تسلیم کیا کہ اس شادی کا اہتمام اسٹیبلشمنٹ کے بعض کھلاڑیوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔
اٹھارہ اگست 2009 کا سورج جیسے ہی طلوع ہوا, روزنامہ آساپ صحافت کی آبیاری کرتا ہوا غروب ہو چکا تھا۔ سورج نے دوبارہ طلوع ہونا تھا۔ پر آساپ کی کرنیں مدھم پڑ چکی تھیں. بلوچستان ایک حقیقی صحافتی ترجمان سے محروم ہونے والا تھا۔ آساپ کی بندش سے قبل اخبار کے مالک کو جان سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ جان تو بچ گئی پر آساپ کو نہ بچا سکے ۔ یوں یہ اخبار صرف سترہ سال جی کر اٹھارہ اگست 2009 کو خالق حقیقی سے جا ملا۔۔ (انا للہ وان الیہ راجعون)۔ جان محمد دشتی لندن کو پیارے ہو گئے۔ آساپ کی جگہ ہسپتال نے لے لی۔ آساپ سے وابسطہ سو سے زائد ورکر بے روزگار ہو گئے۔
کراچی کی سیاست ہمیشہ سے مختلف رنگوں میں ڈھلا ہوا ملتا ہے کراچی شہر جس کو بار بار ملک کا معاشی حب قرار دیا جاتارہاہے، طویل دہشت کی رات ڈھلنے کے بعد اس کی رونقیں معمول پر آئیں تو ہر ایک اس کی روشنیاں واپس لانے کا کریڈٹ اپنے سر لینے کیلئے کوشاں رہا۔
پچھلے کئی دنوں سے قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ احتجاج کر رہے ہیں، شروع میں اْن کے تیرا مسائل تھے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ جو طلبہ یونیورسٹی نے غلط فہمیوں کی وجہ سے نکالے ہیں اْن کو بحال کریں۔