ہم عجیب قوم ہیں ، جب تک کوئی سانحہ نہ ہو جائے اور چند اموات نہ ہو جائیں ہم ہوش میں نہیں آتے۔ اور حکمران تو انسانی نسل سے لاتعلق اور انسانی صفات سے محروم محسوس ہوتے ہیں۔ ہم ہر سیزن کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں۔لیکن ہر تہوار کو ہم مقتل بنا دیتے ہیں۔ حال ہی میں مری میں برف باری میں پھنس جانے اور بروقت مدد نہ ملنے کے باعث 21 افراد جاں بحق ہو گئے۔
تیاری عروج پر تھی اور سب پرجْوش تھے۔یہ گزشتہ مہینہ کی بات ہے جب ہم بی آر سی ( بلوچستان ریزیڈینشل کالج تربت ) کی طرف سے گوادر ٹوْر پر جارہے تھے اور “حق دو تحریک” ابتدئی مرحلے میں تھا۔ گوادر کو دیکھنے کے لیے ہمارے بہت سے دوست پرجوْش تھے کیونکہ آج تک انہوں نے صرف تصویروں اورو یڈیز ( Videos) میں گوادر کو دیکھا تھا۔کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا مہرین ڈرائیو ( Road Drive Marine) کو دیکھنے کے لئے بہت بے چین تھے اور ان کا انتظار قابل دید تھا۔کیونکہ کوئٹہ والوں نے صرف وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دوسرے وزراء کی ٹیوٹر ( Account Twitter) پر لگی ہوئی تصویریں اورویڈیوز دیکھ کر حیران رہ گئے تھے اور گوادر کو دبئی اور سنگاپور سمجھنے لگے تھے۔اسی دوران مجھے ایک کالم یاد آیا جو میں نے ماضی میں پڑھا تھا جس کا عنوان ” تصویر کا دوسرا رخ ” تھااور اسی طرح شاید میرے ان دوستوں کو تصویر کے دوسرے رخ کا پتہ نہیں تھا۔لیکن گوادر کے آغاز ہی سے میرے دوستوں کو گوادر کی دوسرے رخ کا پتہ چلا جب ان کو معلوم ہوا کہ حق دو تحریک کا احتجاجی دھرنا چل رہا ہے اور 4G سروس نیٹ ورک بند ہے۔
گوادر اس وقت ترقی کے افق پر نمودار شہر مانا جاتا ہے۔ یہ شہر سی پیک کا مرکز بھی ہے اور دنیا کے منفرد اہمیت کے حامل گہرے بندرگاہ کا شہر بھی ہے۔ گوادر بندرگاہ کی تکمیل کا منصوبہ پندرہ سال پہلے مکمل کیا گیا ہے۔ گوادر بندرگاہ کو رابطہ سڑکوں سے ملانے کے لئے ایکسپریس وے کا منصوبہ بھی قریب تر پہنچ چکا ہے اور سی پیک منصوبے کے تحت بہت سے منصوبے مکمل کئے جارہے ہیں۔
اس حکومت کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات ،ناقص پالیسیوں اور بیڈ گورننس نے جہاں مہنگائی، کرپشن اور بے روزگاری کے باعث عام آدمی کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے ،وہیں آئے روز اس حکومت کی ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے مختلف قسم کے سانحات کارونما ہونا اس حکومت کی نا اہلی کو مزید ثابت کر رہے ہیں۔
ایک بار پھر بلوچستان قدرتی آفات کی زد میں آگیا۔ بیشتر اضلاع میں سیلابی صورتحال سے نظام زندگی مفلوج ہوگئی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سرکار کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں ہوتی ۔ سیلاب اور طوفان سے بچاؤ سے متعلق کوئی بھی حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی ، جس سے تباہ کاریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوجاتا ہے۔ خاندان کے خاندان سیلابی ریلے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ حکومتی ادارے قدرتی آفات کے تاک میں ہوتے ہیں۔ ہلاکتوں اور املاک کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جاتاہے۔
منشیات ہمارے نسلوں تک میں پھیل چکی ہے۔ جوان، بچے، بوڑھے اب حتیٰ کہ خواتین بھی اس لت میں تیزی سے مبتلا ہورہی ہیں۔کافی تعداد میں گٹر ندی نالوں میں پٹے اور گندے کپڑے پہنے منشیات کے عادی لوگ اس ٹھٹھرتی سردی میں مدہوش پڑے ہوتے ہیں۔ ان میل کچیل سے بھرپور لوگوں کے علاوہ اب ہمارے سفیدپوش تازہ دم خوبرو نوجوان بھی بڑی تعداد میں اس لت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔
ہمارے رقیب جس قدر شاطر ہیں اْس سے ہزار گناہ ہم بے وقوف ہیںَ یہ بات طے ہے کہ دشمن نے جو چال چلی ہے وہ تیغ وتلوار سے کئی گناہ زیادہ خطرناک ہے عنقریب دشمن کی اس چال سے ہماری تعلیمی نظام سے اٹھتا ہوا دھواں ا س قوم کو تباہی کی طرف لے جانے والی ہے اور سب سے بڑھ کر افسردگی کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہم خود کررہے ہیں ہمارا تعلیمی نظام ہمارے ہی ہاتھوں تباہ ہورہا ہے۔
ازل سے یہی ہوتا آرہا ہے ہر دور کا صاحب اقتدار عوام کے تحفظات کو دور کرنے میں ناکام رہا ہے۔
کیونکہ جو لوگ اقتدار میں آتے ہیں وہ نا اہل اور صلاحیتوں سے خام ہیں اس متعلق مولانا عبید اللہ سندھی رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ۔جس میں جتنی اہلیت اورصلاحیت ہو اسکو اسکی اہلیت و صلاحیت کے مطابق ذمہ داری دی جائے۔
پیپلزپارٹی کے سابقہ دور حکومت میں ملک کے جمہوریت پسند قوتوں نے صوبوں اور ملکی اکائیوں کو خود مختیاری یعنی زیادہ اختیارات دینے والا بل قومی اسمبلی وسینٹ سے پاس کرکے 18 ویںترمیم کی صورت میں ایک بااختیار اور آئینی حوالے سے صوبوں کو ان کے وسائل وساحل کا حق ملکیت اور اختیارات تفویض کر دیا۔ اس طرح اٹھارویں ترمیم سے قبل بہت سے وفاقی محکمے جو مرکزکے پاس تھے وہ سب صوبوں کے حوالے کر دیئے گئے۔
بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے کا سلسلہ نہ نیا ہے اور نہ ہی قابل فہم، پاکستان ایک وفاق ہے جس کے استحکام کیلئے ہم آہنگی اور اتفاق کو برقرار رکھا جانا ضروری ہے۔ قوموں کے احساسِ محرومی کو دور کرکے مطمئن اور آسودہ رکھ کر ہی وفاق کو محفوظ و مستحکم بنایا جاسکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ آئے روزوفاق نت نئے طریقوں سے بلوچستان کے مسائل کولوٹنے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔