سال 2019 میں ایک وباء نے چین کے شہر ووہان میں جنم لیا اور تیزی سے دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ آج تک کوئی جان نہیں سکتا کہ یہ وباء منصوعی یا قدرتی ہے کوئی کہتاہے کہ مصنوعی اور کوئی قدرتی کہتا ہے۔اس کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے ہاں البتہ ویکسین کو اس سے بچنے کا طریقہ کہا جاتاہے لیکن اس کا مکمل علاج نہیں اور لگانے کے بعد کرونا وائرس بھی ہوسکتاہے۔
تحریر: شہزاد سید گزشتہ دنوں بیجنگ میں کیمونسٹ پارٹی آف چائینہ CPCکی 100 سوویں سالگرہ کی پریڈ کے موقع پرچینی صدراور CPCکے سیکرٹری جنرل شی چن پنگ کے غیر روایتی خطاب نے چینی قوم اور دنیا کے محکوم و مظلوم اکثریتی اقوام جو آزادانہ منصفانہ معاشی ترقی کے طلبگارہیں انکے مخالفین کو واضح پیغام دیا کہ ہمارے خلاف سازشیں یا رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کے سردیوارچین سے مارکر پاش پاش کر دیں گے ۔
5جولائی 2021میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گوادرکا ایک روزہ دورہ کیا۔میڈیا اور سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پاکستان گوادر میں بے شمار ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھ کر گئے ہیں جن سے مستقبل قریب میں تبدیلی آنے کے ساتھ یہاں کے ماہی گیروں کی معاشی زندگی پر مثبت اثرات پڑیں گے۔لیکن گوادر میں بسنے والے مقامی ماہی گیروں کا وزیراعظم کے چلے جانے کے بعد نہ قسمت بدلی اور نہ ہی شہدکی نہریں بہنے لگیں۔ بادشاہ سلامت نے ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر تسبیح پڑھتے ہوئے دو تین منٹ میں گوادر کا “آسمان” سے جائزہ لیا۔ سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین عاصم سلیم باجوہ ان کو چلتے چلتے یوں ہی گوادر میں ہونے والی ترقی پر “تفصیلی بریفنگ” دیتے رہے۔
مستقبل قریب میں ملک کا معاشی حب گیم چینجر گوادر ان دنوں تاریخ کے شدید ترین بحرانوں کی زد میں ہے۔یہاں کے رہنے والوں کو پانی، بجلی، صحت عامہ اور دیگر بیشمار بنیادی مسائل کا سامنا ہے جس کے باعث اس شہر میں بسنے والے لاکھوں کی آبادی کو آئے روز اذیت ناک مسائل برداشت کرنے پڑرہے ہیں۔ مرد، خواتین اور بچے دل نا چاہتے ہوئے بھی اس شدید گرمی میں پانی اور بجلی کی بنیادی ضروریات کے لئے احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بلوچوں کے لئے اگست کا مہینہ ماہِ سیاہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مہینے میں بلوچ معاشرے میں بے شمارسانحے رونما ہوئے۔ ہرطرف آہ وزاری کا منظر رہا۔ ہر آنکھ اشکبار رہی۔ پہلا سانحہ سات اگست 2013 کو لیاری میں بزنجو چوک کے قریب فٹبال گراؤنڈ میں میچ کے دوران ہوا۔ اس بم دھماکہ میں پندرہ سے زائدبچے شہید اور 27 زخمی ہوئے جس سے علاقے میں سوگ کی فضا طاری ہوگئی۔
آج ایک ایسا دور آیا ہے کہ ہر کوئی صرف اپنی ذات کے لئے سوچتا ہے۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے لیکن اس دور میں بھی فرشتہ نما صفت انسانوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔کیچ ایک ایسا خطہ ہے جو ہر اعتبار سے ذرخیز ہے۔کیچ کے نوجوان سماجی میدان میں پیش پیش ہے خواہ وہ کوئی بھی میدان ہو جو اپنی فرائص بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ان کی خدمات قابل تعریف ہیسال 2019 کو ایک تنظیم کا قیام عمل میں لایاگیا جو اوست ویلفیئر آرگنائزیشن کے نام سے جانا جاتاہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے گوادر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کرنے کے لئے سوچنے کا کہا۔ بعد ازاں وزیر اطلاعات نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ان مذاکرات کو عمل میں لانے کے لئے ترتیب وضع کیا جائے گا۔ اس سے قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ایک بیان میں کہا کہ ہم نے بہت سے گمشدہ افراد کو رہا کروایا ہے۔ انہی دنوں جمہوری وطن پارٹی اور قومی اسمبلی کے رکن جناب شاذین بگٹی کو بلوچ مزاحمتی تنظیموں سے مذاکرات عمل میں لانے کے لئے معاون مقرر گیا۔
گوادر بلوچستان کا خوش قسمت ترین ضلع ہے کہ جسکی شہرت و چرچہ نہ صرف مملکتِ خدائے داد میں ہے بلکہ بین الاقوامی طور پر جانا جاتا اور شْہرت یافتہ بھی ہے۔ لیکن بدقسمتی میں بھی تمام اضلاع سے دو ہاتھ آگے ہے کہ آج 21 ویں صدی میں بھی گوادر کے شہری باقی سہولتوں کو چھوڑ کر پانی جیسی زندگی کی بنْیادی ضرورت سے محروم ہیںاور آئے روز ہائے پانی ہائے پانی کرتے ہوئے سراپا احتجاج ہیں۔ قدرتی طور پر گوادر میں زیرِ زمین میٹھے پانی کا ذخیرہ نہیں ہے۔ اور اگر کہیں پر ہے بھی تو وہ پانی انتہائی نمکین اور کھارہ ہے جو پینے کے قابل نہیں ہے۔
تاریخی پس منظر رکھنے والا گوادر شہر اپنی بے پناہ خوبصورتی، دلکش نظاروں، بہترین محل وقوع تین اطراف نیلگوں سمندر اور ایک طرف خشکی میں واقع اپنی دامن میں بے شمار کہانیاں اور کردار سمیٹے ہوئے ہے۔یہ سرزمین تاریخی ہستیوں,پرامن لوگوں کا گہوارہ اور مسکن رہا ہے۔اس سرزمین نے اپنے دامن میں بہت سی ایسی ہستیاں پیدا کی ہیں جنہوں نے اس کی رکھوالی اور خدمات میں ہمیشہ تاریخ ساز کردار ادا کیا اور امر ہوگئے۔ حاجی عبدالقیوم کا شمار بھی تاریخی کردار کے حامل ایسے ہستیوں میں ہوتا ہے جو زمانہ طالب علمی ہی سے اپنے شہر اور شہر میں بود و باش رکھنے والے باسیوں کی سیاسی معاشی حقوق کے حصول مشکلات اور ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے نظر آئے۔آپ ہمیشہ دوٹوک موقف اختیار کرتے اور سچ بولتے تھے جو بہت سوں کو ناگوار گزرتا تھا۔
بند کمروں میں کیے گئے فیصلے اور اس کے بعد بلوچوں کی گونجتی ہوئی فریادیں اب ایک انوکھی بات نہیں رہے گی بلکہ ہر دور اقتدار والوں کے لیے یہ کام سوال نمبر ایک رہا ہے جو کہ عموما ً لازمی ہوتا ہے۔ دور اقتدار جس کسی کا بھی ہو لیکن بلوچستان میں ایک نعرہ ضرور لگتا ہے کہ ” ہم کو انصاف دو ” کبھی طلباء ، کبھی عوا م اور کبھی ملازمین۔