شہید بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 ء کو کراچی میں پیدا ہوئی، وہ اپنے والد قائد عوام کی پیا ر ی پنکی تھیں، انہوں نے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی جمہو ری سوچ کو لیکر آگے بڑھی شہید بھٹو کی شہا دت کے بعد 1986 ء میں پاکستان آئیں تو عوام کے ٹھا ٹھے ما رتے سمندر نے اُن کا پر تبا ک استقبال کیا اس طرح اس عوامی سمندر ضیا ء آمریت کو شکست دے دی ثابت ہوا شہید ذوالفقار علی بھٹو کا وہ بنیا دی سلو گن کہ ” طاقت کا سر چشمہ عوام ہے”
چار سال قبل ٹرمپ امریکی سیاست کے لیے ایک اجنبی نام تھا اور یہ تصور بھی محال تھا کہ وہ صدارتی انتخاب جیت لے گا۔ امریکی سیاست کے بااثر حلقوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ہیلری کلنٹن کی جیت یقینی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کسی نے ٹرمپ کو سنجیدہ نہیں لیا اور صدارتی امیدواروں کے لیے ہونے والی روایتی کڑی جانچ پڑتال کے بغیر ہی انہیں میدان میں اترنے دیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے ’’ریڈ نیک‘‘ (سرخ گردن) کہلائے جانے والے سفید فام امریکیوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اس طبقے کی اکثریت فیکٹری مزدور ہے ۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کا یوم ولادت مناتے ہوئے راقم کے ذہن میں اواخر نومبر1985ء کے ایک واقعے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ روزنامہ’’ نوائے وقت ــ‘‘اسلام آباد (تب یہ راولپنڈی سے شائع ہوتا تھا) کے رپورٹر جناب نواز رضا راولپنڈی پریس کلب کے صدر منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے ماہوار پروگرام’’میٹ دی پریس‘‘ کا آغاز کیاتھا جس میں ہر ماہ ملک کی نمایاں شخصیات کو اظہارخیالات کیلئے مدعو کیا جاتا تھا۔جناب نواز رضا پروگرام کی پریس ریلیزتمام اخبارات کوجاری کروانے کیلئے خود ہی سپرمارکیٹ میں واقع پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) کے دفتر آجایا کرتے تھے ۔
مسکرایا کیجئے ، اچھا لگتا ہے… غم ہلکا لگتا ہے… غم اور خوشی زندگی کا حصہ ہیں… چاہتے ہوئے بھی آپ انہیں جدا نہیں کرسکتے.. الگ نہیں کرسکتے مگر زندگی جینا تو ہے، تو پھر غموں پر کڑھنے اور رونے کی بجائے کیوں نہ خوشیوں کا ہاتھ تھام لیا جائے… ایسا نہیں ہے کہ زندگی میں صرف غم ہی ہو، اندھیرا ہی ہو… روشنی بھی ہے…. خوشی بھی ہے، بس ہمیں اس طرف بھی دیکھنا ہے… ہاتھ بڑھانا ہے…. اسے تلاش کرنا ہے اور بانٹنا ہے… یہی تو زندگی ہے. ہمیں کوشش کرنا ہے کہ ہم تلخیوں اور محرومیوں کو پس پشت ڈال کر خوشیاں ڈھونڈنا اور بانٹنا سیکھ جائیں۔
یہ 2018 کی بات ہے جب میں کچھ دوستوں کے ہمراہ گوادر کتب میلہ میں شرکت کے لیے گوادر جارہا تھا۔ راستے میں مختلف ریاستی اداروں کے چیک پوسٹوں پر اپنے پاکستانی ہونے کے ثبوت فراہم کرتے کرتے جب گوادر شہر کے داخلی چیک پوسٹ پر پہنچے تو سمجھنے لگا کہ شاید یہاں بھی وہی روایتی سوالات کا جواب دے کر اور پاکستانی ہونے کے ثبوت پیش کرنے کے بعد ہمیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی لیکن ہمارا اندازہ غلط نکلا، اپنی مکمل شناخت کرانے کے بعد جب سیکیورٹی اہلکار نے سوال کیا۔
گوادر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، دنیا کی نظریں جہاں سی پیک اور گوادر پر ہیں، وہیں بلوچستان کے باسی ان نظروں کی وحشت ناکی اور استحصال کی جال کو پہلے سے محسوس کر گئے ہیں۔گوادر کو اخبارات اور جرائد کی صفحات پر ملکی ترقی کی پہلی سیڑھی سمجھا جاتا ہے گوادرکو کشمیر کے بعد دوسرا شہ رگ قرار دیا جائے گا، سیندک ہو یا ریکوڈک سبھی تو ملکی ترقی میں کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہ ترقی اور امن بلوچستان میں نظر نہیں آتے ،بلوچستان میں ترقی نظر آتی ہے تو گمشدہ افراد کی ترقی، بے روزگار افراد کی، بڑھتی خودکشیوں کی ، ماؤں اور بہنوں کی سسکیوں آہوں کی ، ماہی گیروں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی یعنی بلوچستان میں استحصال کی ترقی تو ہوتی ہے۔
دو دوست اور برادر ممالک اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تاریخی تعلقات میں 19 دسمبر، 2020 ایک یادگار دن ہوگا۔ اس دن ایک تاریخی پیش رفت کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین تفتان بارڈر کے علاوہ دوسری رسمی بارڈر کا باقاعدہ افتتاح ہوگیا۔گبد- ریمدان بارڈر (سرحدی گزرگاہ) آخر کار دونوں ممالک کے مابین کئی سالوں کے اتار چڑھائو کے بعد باقاعدہ طور پر کھول دیا گیا۔ دونوں ممالک کے مابین دوستانہ اور برادرانہ تعلقات میں اس اہم اقدام کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے ان کی تجارتی اور معاشی صلاحیتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
20؍دسمبر 2007ء کو گل جی اپنی اہلیہ اور ملازمہ کے ساتھ اپنی رہائش گاہ پر مردہ پائے گئے، انہیں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ گل جی کا قتل فن کا قتل تھا، ثقافت و تہذیب کا قتل تھا، حسن، شرافت اورنیک نامی کا قتل تھا ، اورایک عہد اور ایک تاریخ کاقتل تھا۔یہ عہد 16؍دسمبر 2007 ء کو ختم ہو چکاتھااور تاریخ مٹ چکی تھی لیکن چار روز تک کسی کوخبرتک نہ ہوئی تھی۔ کیا بے خبری تھی کہ وطن کی آن ، بان اور شان کواپنے فن کے ذریعے دنیابھر میں چارچاند لگانے والا اور وطن کے کینوس میں ان گنت رنگ بکھیرنے والا خود خوں رنگ ہوچکا تھا۔
سندھ کے دو جزائر کو پرائیویٹ کمپنی کے حوالے کرنے کے بعد بلوچستان کے دوسرے بڑے جزیرے، چرنا آئی لینڈ کو بھی کمرشل سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ اس منصوبے کوصوبائی حکام سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے خفیہ رکھا گیا ہے۔ چرنا آئی لینڈ کو بلوچستان حکومت ڈبلیو ڈبلیو ایف کی درخواست پر میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) قرار دینے پر غور کررہی ہے۔ میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) ایک بین الاقوامی قانون ہے جس کا مقصد نایاب نسل کے آبی جاندار کی نسل کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔
بلوچستان میں رہنے والے یا یوں کہا جائے کہ بلوچ با الخصوص قول و فعل اور وعدوں کے دھنی ہوتے ہیں وہ جو قول یا اعلان کرتے ہیں اس پر جان قربان کرنے بھی دریغ نہیں کرتے۔ آپ کو بلوچوں کی تاریخ میں ایسے ہزاروں داستان ملیں گے کہ انہوں نے جو وعدہ یا قول کیا اس پر اپنا خاندان اور قوم کی قربانی سے کبھی دریخ تک نہیں کیا۔ لیکن افسوس ہماری سیاست بلوچیت اور عبادت سے ہٹ کر ہی ہے۔ ہماری اب تو روایات بن چکی ہیں کہ جو جتنا زیادہ جھوٹ دھوکہ فریب دینے میں ماہر ہوگا وہ سیاسی میدان کا بڑا کھلاڑی اور عظیم سیاست دان ہوگا۔