بلوچ سرزمین کوجغرافیائی بنیادوں پر مزید تقسیم کرنے کی پالیسیوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہردور میں عالمی طاقتوں نے بلوچستان کو تقسیم کیا جس کی وجہ ان کی سیاسی اور عسکری طاقت کمزور پڑگئی۔ثقافت، زبان اور معاش پر منفی اثرات پڑے۔ ان کو گروہوں میں تقسیم کیاگیا۔ عالمی طاقتوں نے ماضی میں بھی بلوچ سرزمین کو مختلف ممالک کے درمیان بانٹا۔ آج بلوچ سرزمین آپ کو ایران، پاکستان اور افغانستان میں بٹا ہوا ملے گا۔ تقسیم در تقسیم کی پالیسی کامقصد دراصل بلوچوں کو سیاسی و عسکری طورپر کمزور کرنا تھا۔ ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کروانا تھا۔
لیاری میں ایک مرتبہ پھر آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں جرائم پیشہ افراد اور گینگ وار کارندوں نے لیاری کو دوبارہ اپنا مسکن بنانا شروع کردیا ہے۔انتہائی سنگین جرائم میں مطلوب سماج دشمن عناصر جو کچھ عرصہ پہلے آپریشن میں مارے جانے کے خوف سے دم دبا کر بھاگ گئے تھے آج بغیر کسی خوف اور مزاحمت کے لیاری میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناک کے نیچے منشیات کا مکروہ دھندا عروج پر پہنچ چکا ہے۔ گلیوں،سڑکوں،چوراہوں، تعلیمی اداروں، کھیل کے میدانوں حتیٰ کے مسجدوں کے سامنے نوجوانوں کی ٹولیاں تھیلیاں اٹھائے کھلے عام منشیات بھیجتے نظر آتے ہیں۔
بلوچستان کا صنعتی ضلع لسبیلہ خصوصاً حب میں فیکٹری مالکان کی من مانیاں عروج پر ہیں۔ لیبر قوانین کی پامالی عام ہے۔ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کی ہوئی ہے۔ ملازمتیں عارضی ہیں، ورکربنیادی حقوق سے یکساں محروم انتہائی پسماندہ حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ مستقل ملازمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملازمین کی اکثریت عارضی، سیزنل اور کنٹریکٹ ورکرز کی ہے۔ جنہیں ملازمت کا تحفظ، سوشل سیکورٹی اور تنظیم سازی کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ وزرات محنت و افرادی قوت بلوچستان، لسبیلہ انڈسٹریل اسٹیٹس ڈویلپمنٹ اتھارٹی (لیڈا) سمیت دیگر اداروں کے حکام کی مالکان کو مکمل سرپرستی حاصل ہے۔
ایف ایس سی کا زمانہ تھا… انتہائی دباؤ کی فضا… نمبروں کا پریشر، ڈاکٹر جو بننا تھا تب پتہ ہی نہیں تھا کہ زندگی میں میڈیکل اور انجینئر کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے… فارغ وقت ہونا تو پی ٹی وی کا ڈرامہ دیکھ لینا یا کوئی ناول پڑھ لینا… مگر واصف علی واصف سے بھی تھوڑا اٹریکشن تھا وہ بھی اس طرح کہ نویں میں دوست اپنے بابا کی لائبریری سے ان کی ایک کتاب لائی.. تھوڑی پڑھی تو ایسے لگا جیسے یہ میری بات کر رہے ہیں۔
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ہے!مالا مال صوبے میں غربت،پسماندگی،ناانصافی اور بیروزگاری کا عالم دیکھنے لائق ہے۔ بلوچستان پاکستان کا وہ واحد صوبہ جس میں معدنیات کی بہتات ہے۔ قدرت نے اس سرزمین کو سونا،چاندی، گیس،تیل،پیڑول،کوئلہ ودیگر معدنیات سے نوازاہے لیکن یہاں کے عوام غربت وکسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔گوادر کو سی پیک کا جھومر کہاجاتاہے۔
بلوچستان میں ترقی زمین پر نظر نہیں آتی اسکی ایک بنیادی وجہ پچھلے ستر سالوں میں منتخب نمائندوں نے اجتماعی منصوبوں کو ترجیح نہیں دی،ترقیاتی اسکیمات کے نام پر ذاتی اسکیمات منظور کروائی گئیں جسکے نتیجے میں آج بلوچستان پورے ملک سے پیچھے رہ گیا ہے۔دو ہزار دس تک بلوچستان وسائل نہ ہونے کا رونا روتا رہتا تھا اس رونے دھونے کے نتیجے میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ نے بلوچستان کو اتنے وسائل دیئے جتنے صوبے کی ساٹھ سالہ تاریخ میں نہیں ملے تھے لیکن یہ وسائل ایک سیلاب کی طرح آئے اور بہہ گئے، کوئی بند بنا کر ان پیسوں کو بچایا نہ گیا، مال مفت دل بے رحم کی طرح یہ پیسہ اراکین میں بانٹا گیا۔
موٹروے گینگ ریپ سانحے کے بعد کشمور میں ماں اور بیٹی سے زیادتی کے دلسوز واقعے نے انسانیت کے دل دہلا دیے ہیں،اس واقعے نے ہم سب کو اس طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ جس کا نہ تو قلم کے ذریعے افسوس کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی چند لفظوں کے لکھنے سے اس ماں،بیٹی پر گزرنے والی قیامت، ظلم و بربریت،دکھ،پریشانی اور تکلیف کا مداوا کیا جاسکتا ہے۔بچوں کے ساتھ ایسے درد ناک واقعات و سانحات ہوتے ہیں جن کو لکھتے ہوئے قلم تھرتھرا اٹھتا ہے میں کافی دیر سے کالم لکھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر ہاتھ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔کیونکہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں۔
اپنے سیاسی اہداف کے حصول میں جمہوری، پارلیمانی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرکے میثاق جمہوریت کی دھجیاں اڑا کر ن لیگ اور پیپلز پارٹی اب ایک نئے میثاق کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ گو کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں میثاق جمہوریت پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان ہوا تھا لیکن نیا میثاق جمہوریت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل گیارہ جماعتوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہوگا۔ 2006 میں شہید بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ایک تاریخی چارٹر پر اتفاق ہوا تھا آٹھ صفحات پر مشتمل اس تاریخی دستاویز پر اگر من و عن عمل کیا جاتا تو آج ملک ان سیاسی مسخروں کے ہاتھ نہ آتا اور یہ باہر بیٹھ کر اپنے زخموں کو نہ چاٹ رہے۔
گزشتہ دنوں چیف آف جھالاوان سردار ثناء اللہ زہری اورریٹائرڈ جنرل قادر بلوچ نے ایک تقریب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کیا۔بظاہر انھوں نے پارٹی چھوڑنے کی جو وجوہات بیان کیں وہ روایتی الزامات ہیں۔سردار ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ ہم نے بلوچستان میں ن لیگ کوفعال کیا،مگر نواز شریف نے ہمارے ساتھ بے وفائی کی،ہمیں اہمیت نہیں دی۔ریٹائرڈ جنرل قادر بلوچ نے بھی کچھ اسی قسم کے وجوہات کا اظہار کیالیکن پس پردہ جو وجہ ہے جس کا ہر کوئی گمان کر رہا ہے وہ میاں نواز شریف کا سخت بیانیہ یا الزامات ہیں۔
سال کے آغاز میں جب کورونا وائرس کی وبا پھوٹی تو اندازے یہی تھے کہ اس سے بین الاقوامی تعلقات جمود کا شکار ہوجائیں گے۔ بعض لوگوں کو توقع ہوچلی تھی کہ عالمی معیشت اور سیاست میں قائدانہ کردار کی جانب چین کے بڑھتے قدم رُک جائیں گے، اسی طرح چین اور روس کا اتحاد بھی وبا سے پیدا شدہ حالات کو سہار نہیں پائے گا۔ لیکن حالات ان توقعات کے برعکس ثابت ہوئے۔ وبا سے پیدا ہونے والے بحران میں امریکا کی ناکامی اور چین کی سرخروئی کے ساتھ معاشی بحالی نے ایک بار پھر اس تاثر کو پختہ کردیا کہ دنیا کی سیاسی و اقتصادی قیادت اب یوریشیا یا مشرق کی جانب منتقل ہورہی ہے۔