پاکستان میں گلوبل وارمنگ، دہشتگردی جیسے چیلنج سے زیادہ گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ملک میں ہر سال ہتھیاروں سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی سے اموات ہوتی ہیں۔ ایک غیر ملکی تحقیقی ادارے ’انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلوایشن‘ کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 25 ہزار افراد آلودگی سے ہلاک ہوجاتے ہیں جب کہ دہشتگردی کے خلاف برسوں سے جاری جنگ میں اب تک 60 ہزار افراد مارے گئے ہیں۔ پاکستان آلودگی سے ہلاکتوں میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔
یہ کہنا تو نہایت مشکل ہے کہ مستقبل کا مورخ ہمارے عہد رواں کے بارے میں کیا رائے اور نظریہ ترتیب دے گا لیکن یہ بات درست ہے کہ وہ ہمارے زمانے کے جن انسانیت سوز واقعات کو اپنے تجزیے اور تبصرے میں شامل کرے گا ان میں مسئلہ کشمیر یقینی طور پر نمایاں اور اوّلین درجے پر ہوگا۔اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ سائنسی اور فنی اعتبار سے ہماری موجودہ نسل نے بے پناہ ترقی کی ہے اور گاہے اس ترقی کو حیرت کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اخلاقی طور پر اور انسانی اقدار کے فروغ اور استحکام کے حوالے سے ہم لوگ ایک دوسرے کے سامنے شرمندہ ہی نہیں بلکہ بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کیا کہ ن لیگ تین مرتبہ عروج و زوال دیکھنے کے بعد ایک مرتبہ پھر تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ ن لیگ کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، تین بار ملک کے وزیراعظم بننے والے میاں محمد نواز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید کر کے بھارت،اسرائیل، برطانیہ،امریکہ اور عرب ممالک کے میڈیا سے داد وصول کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
پاکستانی جمہوریت پر بات کی جائے تو جمہوریت کی تاریخ انتہائی مختصر ہے برخلاف اسکے کہ جمہوریت اس ملک میں کبھی اپنی جڑیں گاڑ سکے گا بھی یا نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوریت کی کشتی ہچکولے کھاتے کھاتے 1973 میں سمندر کی طغیانیوں سے ایک امید بن کر نکل تو آئی۔ مگر جسے خالص جمہوریت کہا جاتا ہے وہ پھر بھی خالص نہ رہی اور نہ کبھی اسے کسی نے خالص بننے بھی دیا۔
پاکستانی سیاست طفلانہ دور سے نکل ہی نہیں پا رہی،سیاستدانوں کی حب الوطنی اورعوام دوستی صرف تقا ریر اور میڈیا ٹاکس میں نظر آتا ہے۔یہ خوابوں کے بیوپاری ہیں،جھوٹ مکاری ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ان کی سیاست کا مقصد حصول اقتدار ہی ہوتا ہے۔جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اپوزیشن کاہر عمل ملک اورعوام دشمن نظر آتا ہے۔احتساب کو محض سیاسی انتقام اور اپوزیشن کو دبانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔مخالف سیاستدانوں پر کرپشن کے بڑے بڑے کیسز بنائے جاتے ہیں۔
مڈل اسکول میں تاریخ اور شہری حقوق کے مضامین پڑھانے والے استاد سیمیول پیٹی کو پیرس کے ایک مضافاتی قصبے میں قتل کردیا گیا۔ حملہ آور کی شناخت ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ فرانس میں پناہ گزیں 18برس کا ایک چیچن تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور نے ”اللہ اکبر“ کا نعرہ لگاتے ہوئے مقتول پر کئی وار کیے۔ اس کے بعد حملہ آور نے سیمیول پیٹی کے سر کی تصویر کے ساتھ ایک ٹوئٹ کیا جس میں لکھا”میں نے محمد ﷺ کی اہانت کرنے والے ایک کتے کو انجام تک پہنچا دیا“۔ چند منٹوں بعد ہی حملہ آور کو گولی مار دی گئی۔
ستر سالہ ماسٹر رفیق احمد ایک ریٹائرڈ ہائی اسکول ٹیچرہیں، جو پاکستان کے مختلف ادوار بہت قریب سے دیکھتے رہے ہیں، موجودہ دورکو وہ ایک الگ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بہت ہی خوبصورتی سے سیاست اور ملک میں جاری سیاسی محاذآرائی پربات کرتے ہیں، میں عموماً ان کا تجزیہ لیتا ہوں، ویسے یہ کسی بڑے سینئر تجزیہ کاروں سے ہرگز گم نہیں ہیں۔ سیاست کے مختلف ادوار پر بات کرتے ہوئے ماسٹررفیق احمد کاتجزیہ ہے کہ ایک زمانہ تھالوگ سیاست خدمت کیلئے کرتے تھے قربانی دیاکرتے تھے، عوام کا احساس کرتے تھے، ملک و قوم کے لئے اپنی زندگیاں گزار کربھی سمجھتے تھے کہ کچھ نہیں کیا، اپنی جائیدادیں، ساری جمع پونجی غریب عوام کی فلاح پر لگادیاکرتے تھے، پھر وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آئی، وقت بدلا سیاست میں پیسہ آیا اور سیاست پھر پیسے کیلئے ہونی لگی۔
بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے مگر ہے پسماندہ، ہر حوالے سے۔سونا، چاندی، کرومائیٹ، زنک، جپسم، نمک، سنگ مرمر،قدرتی گیس،تیل،مچھلی،اور پورا خطہ زرعی اجناس کی پیداوار کے لئے انتہائی مفید،تمام پھل فروٹ سبزی اناج و دیگر اجناس کے لیے اپنی جغرافیائی اعتبار سے ثانی نہیں رکھتا۔ طویل ساحلی پٹی اس کی جغرافیائی اہمیت کو چار چاند لگا دیتا ہے وسطی ایشیاء ریاستوں کو قریب تر کرنے کیلئے آبی گزرگاہ آبنائے ہرمز جن پر بین الاقوامی طاقتوں امریکہ یورپ چائینہ اور روس کی گرم پانیوں تک رسائی کی جد وجہد سے کون واقف نہیں ہے۔
کراچی میں بلوچ علاقے خصوصاً لیاری کو ایک بار پھر جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیا جارہا ہے۔ علاقے میں سیاسی اور سماجی کلچر کو بندوق اور منشیات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیاری، پراناگولیمار، جہانگیر روڈ، ملیر، گڈاپ، مواچھ، ماری پور سمیت ہاکس بے کے قدیم گوٹھوں میں جرائم پیشہ افراد منشیات فروشی کررہے ہیں۔ ہرمحلہ اور گلی میں منشیات فروشی کی جاری ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے آنکھیں بندکررکھی ہیں۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جب بھی لیاری میں بلوچستان کے حوالے سے سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچتی ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے کوئٹہ جلسے کے روز سے بھانت بھانت کی بولیاں سن رہا ہوں کسی نے اسے صوبے کی تاریخ کا کامیاب جلسہ کہا تو کسی نے اسے مجلس اور جلسی کہا۔ میری ذاتی رائے میں یہ ایک کامیاب جلسہ تھاسب سے پہلے اسکی کامیابی کا سہرا مولانا فضل الرحمان، سردار اختر مینگل،محمود خان اچکزئی اور دیگر کے سر جاتا ہے اسکے علاوہ اس جلسے میں دیگر جماعتوں کی حیثیت میری نظر میں مہمان اداکاروں کی ہے۔ میرے لئے یہ بات اس وقت انوکھی ہوتی جب مولانا فضل الرحمان تن تنہا یہ مجمع اکھٹا کرتا، سردار اختر مینگل یا پھرمحمود خان اچکزئی کی جماعت ایسا کرتی تو پھر انگشت بدنداں بیٹھا سوچتا کہ یہ کیا ہوگیا۔