|

وقتِ اشاعت :   October 11 – 2013

وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بعض وفاقی اداروں کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ رویہ درست نہیں ۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنا کر ان اداروں سے رابطہ کریں گے ,پھر بھی شنوائی نہیں ہوئی تو وفاق سے مطالبہ کریں گے کہ اپنے اداروں کو لگام دے ۔انہوں نے گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ معزز رکن اسمبلی مجید خان اچکزئی نے پاسپورٹ اور نادرا کے بارے میں جو نشاندہی اور شکایت کی وہ درست اور برحق ہے کیونکہ اس سے قبل کسٹم کے بارے میں شکایت موصول ہوئی اور ہم نے کسٹم حکام کو طلب کرکے عوام کی شکایات ان کے سامنے رکھ لیں لیکن وہ اپنی جگہ قائم ہے آج تک انہوں نے کچھ نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کے ساتھ بعض وفاقی اداروں کسٹم ‘ نادرا اور پاسپورٹ آفس کا رویہ درست نہیں ۔ ہم اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی بنا کر ان کے سامنے عوامی شکایات رکھیں گے اور زور دیں گے کہ عوام کی خاطر اپنی پالیسی تبدیل کریں اور یہاں گڑ بڑ نہ کریں ورنہ ہم بھی آپ کے ساتھ گڑ بڑ والا رویہ اختیار کریں گے ۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے نام میں موجود ان کی شناخت ہی وفاقی اداروں کے ناروا روئیے کا جواز ہے اور یہ صرف موجودہ وزیراعلیٰ یا اس کی حکومت کے ساتھ نہیں ہورہا ۔ اس سے قبل بھی بلوچ قوم پرست قائدین کے ساتھ وفاقی اداروں کے اعلیٰ اہلکار تو درکنار ادنیٰ سے ادنیٰ اہلکار کا رویہ بھی قابل مذمت رہا ہے ۔ سردار عطاء اللہ مینگل سے لے کر سردار اختر جان مینگل تک جتنے بھی بلوچ قوم پرست وزیراعلیٰ آئے، ان کے ساتھ وفاقی اداروں کا رویہ ٹھیک نہیں رہا ۔ گزشتہ حکومت میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے بلوچ وزیراعلیٰ بھی وفاقی اداروں سے گلہ مند تھے۔ انہوں نے بار ہا اپنے بیانات میں تسلیم کیا تھا کہ وفاقی ادارہ ایف سی نے بلوچستان میں متوازی حکومت قائم کررکھی ہے ۔ اگر وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے چند وفاقی اداروں کی شکایت کی ہے تو کوئی نئی بات نہیں اور یہ شکایت بھی وزیراعلیٰ نے بلوچستان اسمبلی میں پشتون علاقے سے منتخب ہو کر آنے والے رکن کی نشاندہی پر کی ہے ۔ بلوچ علاقوں میں وفاقی اداروں کا رویہ کبھی قابل ذکررہا ہی نہیں، اس سے نہ وفاقی حکومت کو غرض ہے نہ صوبائی حکومت کو کچھ مطلب ‘ چونکہ بلوچوں کے ساتھ ناشائستہ رویہ شاید ان اداروں کے فرائض منصبی میں شامل ہے ۔ بلوچ علاقوں میں نادرا‘ پاسپورٹ آفس اور کسٹم حکام بشمول ایف سی کچھ بھی کرے اس کی شکایت اس طرح موثر نہیں ہوگی جتنی پشتون علاقوں میں یہ شکایت اثر پذیر ہوتی ہے ۔ گوادر اور دیگر ساحلی علاقوں میں کوسٹ گارڈ اپنی مرضی کے قوانین لاگو کرکے بلوچ عوام کو جتنا چاہے تنگ کرے، اس پر کسی کو شکایت کرنا یاد نہیں رہتا۔ پنجگور اور تفتان کے علاقوں میں ایرانی سرحد کے باعث ایف سی اور کسٹم اہلکاروں کی چیرہ دستیوں سے وہاں کے نہ صرف کاروباری بلکہ عوام تک تنگ ہیں ۔ مگر مجال ہے کہ ان بے چاروں کی فریاد برآری ہو ۔ لیکن اگر بلوچستان کے پشتون علاقوں میں سمگلنگ کے خلاف کسٹم عملہ کچھ کرنے کی جسارت کرتاہے تو وہ شکایت بن کر صوبائی اسمبلی کے فلور پر بحث کا حصہ بن جاتا ہے ۔ بہر حال جو بھی ہو صوبے کے وزیراعلیٰ نے بالآخر یہ تسلیم کر لیا کہ وفاقی اداروں پر ان کا زور نہیں چلتا ۔ اچھا ہوا کہ وزیراعلیٰ نے بلوچستان کے عوام کے سامنے اختیارات کا احاطہ کردیا ورنہ صوبے کے عوام شاید سہانے خواب دیکھنے کی آس پر چین کی نیند سو جاتے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب محدود اختیارات کے حامل تین وفاقی اداروں سے وزیراعلیٰ بات نہ ماننے کی شکایت کررہے ہیں تو کل کو ریاست کے خلاف محاذ آراء بلوچ مزاحمت کاروں کو کیسے قائل کریں گے کہ وہ با اختیار ہیں اور وہ ناراض بلوچوں کے مطالبات پورا کریں گے۔ لہذا وزیراعلیٰ بلوچستان کو نظام حکومت چلانے کے لئے عجزو انکساری کاچوغہ اتارنا ہوگا اور نواب اکبر بگٹی شہید کی طرح وزارت اعلیٰ کے فرائض سرانجام دینا ہونگے۔ تب ہی وفاقی اداروں کا قبلہ درست ہوسکے گا ورنہ سب سے پس ماندہ اور چھوٹے درجے کے چھوٹے صوبے کے وزیراعلیٰ کی شکایت پر کون عمل کرے گا۔