|

وقتِ اشاعت :   July 22 – 2014

برطانیہ میں ایک نئے قانون کے مطابق اُن والدین کو سزا ہو سکتی ہے جو اپنی بیٹیوں کے جنسی اعضا کے کاٹنے کو نہیں روکیں گے۔ اس عمل کو انگریزی میں فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن یا ایف جی ایم کہتے ہیں۔ لندن میں آج شروع ہونے والے ’گرل سمٹ‘ میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس عمل کی روک تھام کے لیے 14 لاکھ پاؤنڈ کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پوری دنیا میں ایف جی ایم اور زبردستی کی شادی کو اسی نسل میں روکنا ضروری ہے۔ برطانیہ میں مقیم ایک لاکھ 37 ہزار خواتین کے جنسی اعضا کو کاٹا جا چکا ہے۔ برطانیہ میں ہونے والے ’گرل سمٹ‘ میں زبردستی کی شادیاں ختم کرنے پر بھی بات ہو گی۔ اس اجلاس کا انعقاد برطانوی حکومت اور یونیسیف کے تعاون سے کیا گیا ہے اور اس میں بین الاقوامی سیاست دان اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم شخصیات شرکت کر رہی ہیں جن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسفزئی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں وہ خواتین بھی شرکت کریں گی جن کے جنسی اعضا کو کاٹا گیا ہے۔ کانفرنس سے قبل بات کرتے ہوئے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ ’خواتین کا حق ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر ان کی شادی نہ کی جائے اور ان کی ایف جی ایم کر کے انھیں زندگی بھر کے لیے نفسیاتی اور جسمانی طور پر معذور نہ کیا جائے۔ اس طرح کی روایات چاہے کسی معاشرے میں کتنی ہی قدیم کیوں نہ ہوں، وہ برطانیہ سمیت دنیا بھر میں خواتیں کے حقوق کی پامالی کرتی ہیں۔‘ ایف جی ایم کی روایت افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں صدیوں سے جاری ہے۔ یہ روایت یورپ اور شمالی امریکہ کے کچھ حصوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ آج ایف جی ایم کو انسانی حقوق کی حلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ جن خواتین کے اعضا کو کاٹا جاتا ہے انھیں سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اس روایت کے نقصانات کی وجہ سے عورتوں کے مستقبل میں ماں بننے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور زچگی میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے 25 سال میں اس روایت کو روکنے کے لیے کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2050 تک افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے 29 ممالک میں پیدائش کے وقت تین میں سے ایک اموات کی وجہ ماں کے ختنے ہو گی۔ مزید یہ کہ ان ممالک میں 50 کروڑ خواتین کے ختنے کرائے جائیں گے۔