|

وقتِ اشاعت :   April 26 – 2015

بلوچستان کے محل و قوع اور اس کی اہمیت سے نا واقف لوگ یہ شور مچاتے نظر آتے ہیں کہ چینی گزر گاہ اگر مخصوص بلوچستان کے علاقے سے نہیں گزرا تو قیامت آجائے گی بلوچ پورے ساحل مکران کے وارث ہیں جو بندر عباس سے شروع ہوتا ہے اور کراچی پر ختم ہوتا ہے ۔آبنائے ہرمز جہاں سے دنیا کا چالیس فیصد تیل گزرتا ہے وہ ساحل مکران پر واقع ہے گوادر یا اس سے زیادہ درجن بھر بندرگاہیں ساحل مکران پر موجود ہیں ۔ چینی گزر گاہ کا اصل ہدف کا شغر سے لے کر حویلیاں یا راولپنڈی ہے ۔ باقی رہا سہا پاکستان نہیں ہے ،چین کو اپنے ہی ملک میں مشکلات کا سامنا ہے ‘ چین کی بڑی قومیت ہون نے سنکیانگ پر قبضہ کر لیا ہے چینی مسلمانوں کی تعداد چین کے قبضے سے پہلے سو فیصد تھی اور سنگیانگ مملکت ایران کے برابر ہے ۔ چینی مسلمانوں کی آبادی گھٹ کر 46فیصد رہ گئی ہے ۔ 54فیصد آباد ہون قومیت سے تعلق رکھتی ہے ۔ چینی مسلمان اپنے علاقے کو نو آبادی بنانے کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ ان کے پاس بندوق ‘ راکٹ لانچر ز نہیں ہیں وہ اپنی نفرت اور ناراضگی کا اظہار چاقو سے کرتے ہیں ۔سنگیانگ میں مشکلات ہی کی وجہ سے چین سنگیانگ کی تنہائی اور علیحدگی کو توڑ نا چاہتا ہے اور اس کو بین الاقوامی تجارت ‘ معاشی اور دیگر سرگرمیوں میں بہا کرلے جانا چاہتا ہے ۔ چینی گزر گاہ صرف کاشغر سے راولپنڈی تک محدود رہے گا۔ اس پر چین اور پنجاب کا اشتراک جاری رہے گا جس کا مقصد چینی ترکستان کی مخصوص حیثیت کوختم کرنا ہے۔ دوسری جانب چین کو گوادر پورٹ کا ٹھیکہ ملا ہے وہ یہاں پر ٹھیکے داری ہی کرے گا، چین سے کسی کو کوئی خطر نہیں ہے۔ چینی لیڈر شپ اتنی احمق نہیں ہے کہ ساحل مکران میں امریکی کنٹرول کو چیلنج کرے۔یہ خطہ امریکیوں کے کنٹرول میں ہے اور اس کو کسی جانب سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ امریکا پہلے ہی روس ‘ بھارت کو اس خطے سے فوجی طورپر بے دخل کر چکا ہے ۔ ساحل مکران پر صرف امریکی اور اس کے اتحادیوں کا بحری بیڑہ موجود ہے ۔ وہ اتنی بڑی ہے کہ اس کا تصور تک بعض لوگ نہیں کر سکتے ۔ اس لئے چین گوادر سے چند ارب ڈالر کمانا چاہتا ہے ۔ امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے نہیں آرہا ہے بلکہ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وہ امریکہ کی مرضی سے گوادر آرہا ہے۔ بین الاقوامی منڈی اور عالمی قوتوں کو گوادر کی ضرورت ہے اوراس کو جلد سے جلد اور کم ترین قیمت پر صرف چین تعمیر کر سکتا ہے ۔ چین کے پاس سستی لیبر موجود ہے اور وہ دن رات کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لئے بین الاقوامی قوتیں گوادرکی بندر گاہ کو استعمال کرنا زیادہ مناسب سمجھتی ہیں ۔بہ نسبت چاہ بہار کے ‘ ایران سے بین الاقوامی قوتوں کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں مگر پھر بھی وہ چاہ بہار کی گزر گاہ استعمال کرنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لیں گے۔ بھارت پہلے ہی چاہ بہار کی بندر گاہ میں دو برتھ مخصوص کراچکا ہے ۔ بھارت نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا تھا اور اب اس کی ترقی پر تیس کروڑ ڈالر خرچ کررہا ہے ۔ شاہراہ ریشم کی متوازی سڑک چین ، ایران اور بھارت مل کر بنار ہے ہیں ۔ یہ ایران کا منصوبہ ہے کہ چاہ بہار کی بندر گاہ کی سڑک ایرانی بلوچستان ‘ افغانی بلوچستان ‘ افغانستان تاجکستان سے ہوتا ہوا کاشغر تک جائے گا۔ ایران ،چین اور بھارت جیسی معاشی طاقتیں اس گزر گاہ کو تعمیر کررہی ہیں اس کوسڑک اور ریلوے کے ذریعے ملا دیا جائے گا۔ ایران نے چاہ بہار سے چوڑی سڑک افغانستان کے سرحد تک پہنچا دی ہے ایران نے وعدہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے اندر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مالی اور تکنیکی امداد فراہم کرے گا جبکہ چین ریلوے لائن کی تعمیر تاجکستان کے ریگستان کے اندر تعمیر کرے گا ۔اور اس سے متوازی شاہراہ پر زیادہ تیزی سے کام جاری ہے ۔ اگر یہ مکمل ہوگیا تو ایران صرف چاہ بہار کی گزر گاہ سے بیس ارب ڈالر سالانہ کمائے گا یہ راہداری کی فیس ہوگی جوچاہ بہار کی بندر گاہ کو وسط ایشیاء کے ریل اور روڈ کے نظام سے منسلک کرے گی ۔دوسری جانب سندھ اور پنجاب کی تمام تر ضروریات کراچی پورٹ پوری کررہا ہے ۔ گوادر اور چاہ بہار کا تعلق وسطی ایشیائی ممالک سے ہے ۔ پنجاب اور چینی گزر گاہ سے نہیں ہے گوادر سے ترکمانستان کا فاصلہ صرف 1400کلو میٹر ہے جس کو تعمیر کرنا زیادہ آسان ہے بجائے ژوب کو گوادر سے ملانے کے۔