|

وقتِ اشاعت :   November 29 – 2015

نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے باتیں کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ موجودہ اور دستیاب وسائل سے بلوچستان کو ترقی دینا مشکل ہے اس لئے وفاقی حکومت کو کئی سو ارب روپے سالانہ بلوچستان پر خرچ کرنا چائیے تاکہ بلوچستان دوسرے صوبوں کے برابر جلد سے جلد آسکے ۔ بلوچستان کا رقبہ تقریباً آدھے پاکستان کے برابر ہے، اس لیے اس کی ترقی پرسرمایہ کے لئے زیادہ سے زیادہ وسائل مختص کیے جائیں تاکہ ترقی کی رفتار تیز ہو اور لوگوں کو مایوسی کے عالم سے باہر نکالا جائے ۔ صنعتی شعبے میں پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک بلوچستان میں ایک صنعت نہیں لگائی گئی ۔ ٹیکس کی چھوٹ کی وجہ سے چند ایک کارخانے حب میں قائم ضرور ہوئے تھے ، ٹیکس کے مراعات واپس لینے کے بعد وہ سارے کارخانے پنجاب منتقل ہوگئے ۔ وہاں ان سرمایہ کاروں کو زیادہ سہولیات اور مراعات دی گئیں بلکہ ان کو یہ پیش کش کی گئی کہ وہ پنجاب آئیں اور زیادہ مراعات اور سہولیات حاصل کریں ۔ دوسری بات یہ تھی کہ حب کا صنعتی علاقہ کراچی کے سائیٹ صنعتی مرکز سے صرف چھ میل پر واقع تھا جبکہ سندھ کا صنعتی علاقہ نوری آباد کراچی سے پچاس میل دور تھا ۔ حب اوروندر کے بعد کہیں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی اور کوئی صنعت لگانے کا نہ منصوبہ بنایا گیا یا قائم کیاگیا ۔ اس کے برعکس کپڑے کی دو بڑی ملز اوتھل اور کوئٹہ دونوں کو ایک گہری سازش کے تحت بند کیا گیا کیونکہ یہ دونوں ملز تقریباً بیس ہزار افراد کو روزگار فراہم کررہے تھے اس میں مقتدرہ اور ٹیکسٹائل مافیا سازش میں شریک تھے ایک مل کی اربوں روپے کی مشینری سابق گورنر اویس احمد غنی کے قریبی رشتہ دار کو صرف 16کروڑ روپے میں فروخت کی گئی سابق گورنر ان دونوں ملوں کو بند کرانے میں پیش پیش تھے اور مقتدرہ کی نمائندگی کررہے تھے کہ بلوچوں کو اپنے وطن میں روزگار سے محروم کیاجائے چنانچہ اتنے وسیع اور عریض خطے میں کارخانے نہ لگانا صرف امتیازی سلوک کی نشاندہی کرتا ہے۔ بلوچستان میں اتنے وسائل ہیں ‘ خام مال موجود ہے جس سے پورے پاکستان کے لوگوں کو روزگار مہیا کیا جاسکتا ہے ۔ جب1999کی دہائی میں بلوچستان کو گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں 110ارب اضافی ملے تو وزیراعظم پاکستان نے غصہ میں آ کر بلوچستان کے لئے وفاقی ترقیاتی پروگرام کی بجٹ سے دس ارب روپے کاٹ لیے اور اخبار میں یہ بیان بھی دیا کہ بلوچستان بہت امیرصوبہ ہے ۔لاہور کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے صحیح کہا کہ بلوچستان سے متعلق’’ مائنڈ سیٹ ‘ ‘ کو تبدیل کرنا چائیے اور بلوچستان کی ترقی کیلئے دل کھول کر وسائل فراہم کرنا چائیے۔ پنجاب اپنی ترقی پر 500ارب روپے سالانہ خرچ کررہا ہے اور اتنی ہی رقم وفاقی حکومت وفاقی منصوبوں کے ذریعے پنجاب میں خرچ کررہی ہے ۔ جبکہ بلوچستان آدھا پاکستان ہے ۔ چند سالوں بعد آدھا پاکستان ‘ بلوچستان پسماندہ رہے گا اور باقی پاکستان ترقی کرے گا دنیا بھر میں پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک شمار نہ ہو سکے گا جب بلوچستان یا آدھا پاکستان پسماندہ ‘ غریب اور نادار ر ہے ۔ اس لئے وزیراعلیٰ کا یہ مطالبہ جائز اور قانونی ہے کہ سالانہ بلوچستان پر کئی سو ارب روپے خرچ ہوں۔ اس کے وسائل کو ترقی دیں ’ گوادر اورشاہراہ پر بہت زیادہ زور دیا جارہا ہے ۔ حقیقت میں گوادر سے متعلق ترقیاتی پروگرام پر رواں سال صرف تین ارب روپے رکھے گئے ہیں گزشتہ پندرہ سالوں سے گوادر ائیر پورٹ پر کام شروع نہ ہو سکا ۔ گوادرکو پاکستان کے ریلوے کے نظام سے ملانے کا ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں ہے گوادر کے قریب ریلوے یارڈ بنانے کے لئے کچھ رقم مختص کی گئی ہے ۔