|

وقتِ اشاعت :   December 18 – 2017

ایوان بالا میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ پاکستان کو مشرقی وسطیٰ کی جنگ میں گھسیٹا جارہا ہے۔ا س لئے پی پی پی کے سینیٹر نے یہ مطالبہ کیا کہ حکومت وہ تمام شرائط ایوان کے سامنے پیش کرے جن کے تحت پاکستان عرب ناٹو یا وسیع تر اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا حصہ بن گیا ہے۔ 

ایوان بالا کے اراکین اس کی تمام تر تفصیلات پیش کرنے کامطالبہ کررہے ہیں۔ بعض اراکین کو خدشہ ہے کہ پاکستان اس اتحاد کا حصہ بن گیا ہے جو ایران کے خلاف قائم ہوا ہے۔ ابھی تک کسی بھی بات کی تصدیق یا تردید حکومت وقت نے نہیں کی ہے۔ 

اس سے قبل حکومت نے یمن بحران کے دوران یقین دہانی کرائی تھی کہ پاکستان ایران کے خلاف عرب اتحاد یا وسیع تر مسلم اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا۔ دوسری طرف ایوان بالا کے بعض اراکین کو یہ شکایت ہے کہ فوج کے سربراہ نے ایران کا دورہ کیا تھا اور اس کی تفصیلات سے بھی پارلیمان کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ 

اس پر سینیٹر نے وزرات خارجہ کے ترجمان کا بیان ایوان میں پڑھ کر سنایا کہ حکومت بھی بعض باتوں سے لاعلم ہے اور ترجمان خود بھی حکام سے تفصیلات طلب کررہا ہے۔ وہ ’’حکام‘‘ کون ہیں ۔دوسری جانب گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ نے انکشاف کیا کہ افغانستان کا دفاع مضبوط بنادیا گیا ہے اور دہشت گردوں کے لیے یہ زیادہ آسان ہے کہ وہ اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے افغانستان کے بجائے پاکستان کا رخ کریں جو زیادہ طاقتور نہیں ہے۔ 

دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ افغان جنگجو پاکستان کا رخ کریں گے اور پاکستان کی سرزمین پر ’’قبضہ‘‘ کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ایک واضح دھمکی ہے کہ امریکہ دہشت گردوں کو پاکستان جانے کی شہ دے رہا ہے جہاں وہ زمین حاصل کرنے کی جنگ لڑیں گے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال یہ ہے کہ اس کا مطلب ’’پشتونستان کی جنگ‘‘ ہے جسے شروع کرنے کا ارادہ ہے۔

اس نئی جنگ میں شاید امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مکمل حمایت جنگجوؤں کو حاصل ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس کھلی اور واضح دھمکی کا نوٹس لے ۔ تجزیہ کاروں کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ ایک ماہ کے اندر امریکہ ایران کا جوہری معاہدہ ختم کررہا ہے اور صدر ٹرمپ اس کا باضابطہ اعلان کرنے والے ہیں۔ 

اس کا واضح مطلب یہ لیا جارہا ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف اعلان جنگ کررہا ہے جس میں امریکہ کے تمام اتحادی شریک ہوں گے اس میں خصوصی طور پر سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی ممالک کی فوجی اتحاد شامل ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ پاکستان اور ایران کے خلاف بیک وقت جنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کا خاتمہ ایران کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے اور تمام ایران مخالف ممالک اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیں گے۔ ایران کے ساتھ صرف حزب اللہ اور حماس ہوں گی باقی مسلم ممالک شاید یہ جرات نہ کرسکیں کہ وہ امریکہ اور اس کی پالیسیوں کی مخالفت کریں۔ 

ادھر ایران میں حکومت مخالفین یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ایران ایک دفاعی اتحاد بنارہا ہے جس میں وہ عراق، ترکی اور پاکستان کو شریک کرنا چاہتا ہے۔ امریکی پالیسی کی زبانی کلامی مخالفت الگ بات ہے مگر یہ مشکل نظر آتا ہے کہ پاکستان اور ترکی ایران کے کسی فوجی اتحاد میں شامل ہوں اور امریکہ کے خلاف جنگ لڑیں ۔