|

وقتِ اشاعت :   February 11 – 2018

بلوچستان میں مثبت صحافتی اقدار اور حریت فکر کا ایک روشن چراغ تقریباً نصف صدی تک محرومیوں کے اندھیروں میں روشنی کی امیدیں جگاتے ہوئے 6 فروری کو پیر اور منگل کی درمیانی رات کے آخری پہر نہایت خاموشی سے بجھ گیا۔

حلقہ یاراں میں ’’لالہ صدیق‘‘ کی دلآویزپہچان والے بزرگ صحافی صدیق بلوچ مادی طور پر اب ہم میں نہیں رہے۔ مجھے اسی صبح ان کے بڑے صاحبزادے آصف بلوچ نے ان کی ناگہانی رحلت کے بارے میں ایس ایم ایس پیغام بھیجا۔

دل دھک سے رہ گیا۔ وہ ان میں سے نہیں تھے جن کے یوں بچھڑنے کی کوئی توقع کرے سو اس خبر پر یقین کرنے میں بڑی دیر لگی۔ موت سے کس کو رستگاری ہے۔ آج تم کل ہماری باری ہے۔

صدیق بلوچ بلوچستان کے ان نامور صحافیوں میں سے تھے جنہوں نے موقر قومی اخبارات، یا اپنے اپنے روزناموں کے ذریعے نہ صرف اس غیر ترقی یافتہ اور محرومیوں کے شکار صوبے کے سلگتے ہوئے مسائل شدومد سے اجاگر کئے بلکہ وقت کے حکمرانوں کو ان کے حل کی ہمہ جہت اور قابل عمل تجاویز پیش کرکے رہنمایانہ کردار بھی ادا کیا۔

کراچی میں بلوچوں کی پسماندہ بستی لیاری میں 78سال قبل 1940میں پیدا ہونے والے اس دانشور نے پہلے ایک طالب علم لیڈر اور بعد میں ایک سنجیدہ مزاج صحافی کی حیثیت سے نہایت سرگرم اور بے باک قلم کار کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

1972 میں وہ انگریزی کے ایک بڑے اخبار میں بطور سٹاف رپورٹر فرائض انجام دے رہے تھے کہ بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت بنی بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے جو صوبے کے پہلے منتخب عوامی گورنر تھے، کی گوہر شناس نظر ان پر پڑی اور انہیں کراچی سے کوئٹہ بلاکر اپنا پریس سیکرٹری مقرر کیا۔

مگر اس سرکاری نوکری نے 8ماہ بعد ہی انہیں اس وقت جیل پہنچا دیا جب نیپ کی حکومت برطرف کردی گئی اور گورنر بزنجو سمیت نیپ کے لیڈر اور ان کے قریبی وابستگان کو کال کوٹھڑیوں میں ڈال دیا گیا۔ صدیق بلوچ نے یوں ساڑھے چار سال ناکردہ گناہ کی پاداش میں جیل کاٹی۔

رہا ہوئے تو پھر کوچہ صحافت کا رخ کیا اور اسی انگریزی اخبار میں 1989 تک سینئر رپورٹر رہے۔ پھر سندھ ایکسپریس کے نام سے اپنا اخبار نکالا جو وسائل کی کمی کے باعث دو سال بعد بند ہوگیا۔ تاہم صدیق بلوچ نے ہمت نہ ہاری اور کوئٹہ منتقل ہوکر 1992 میں اپنا انگریزی اخبار نکالا، پھر 2000میں اردو اخبار بھی جاری کیا۔

دوسرے پیشہ وارانہ امور انجام دینے کے علاوہ ان دونوں اخبارات کے اداریے بھی خود لکھتے تھے، ان کے اداریے حق گوئی اور بے باکی میں ان کے عملیت پسند مزاج سے پوری طرح مطابقت رکھتے تھے جس طرح عام زندگی میں وہ قومی اور عوامی مسائل پر بے لاگ رائے کو مصلحتوں کا شکار نہیں ہونے دیتے تھے اسی طرح اپنے اداریوں میں بھی انہوں نے صاف گوئی کو اپنا شعار بنایا۔

بلوچستان کے مسائل پر وہ ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ وفات سے قبل انہوں نے اپنے انگریزی اخبار میں جو آخری اداریہ لکھا وہ افغانستان میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات کے بارے میں تھا۔

اس میں انہوں نے دنیا کو باور کرایا کہ پاکستان پر افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بے بنیاد الزامات لگائے جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور فاٹا میں جو خودکش حملے ہو رہے ہیں وہ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کی کارستانی ہیں۔

پاکستان تو مسلسل امریکہ اور افغانستان پر زور دے رہا ہے کہ وہ بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے افغان سرحد پر دہشت گردوں کی آمدورفت روکے۔ دہشت گردی بڑھنے کی وجہ اس مشورے کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ اردو اخبار میں انہوں نے جو آخری اداریہ لکھا اس کا عنوان تھا، بلوچستان میں فوڈ اتھارٹی کی ضرورت۔

اس میں انہوں نے توجہ دلائی کہ بلوچستان میں مضر صحت ملاوٹ شدہ اشیاء بے تحاشا فروخت ہو رہی ہیں۔ اس کے تدارک کیلئے پنجاب کی طرح صوبے میں فوری طور پر فوڈ اتھارٹی قائم کی جائے تاکہ صوبے کو صاف شفاف اور ملاوٹ سے پاک غذائی اجناس مل سکیں۔

جو شخص ملاوٹ میں ملوث پایا جائے اسے زندگی بھر جیل میں رکھا جائے۔ اس کی دکان سربمہر کی جائے اور اس کی جائیداد ضبط کی جائے تاکہ کسی کو آئندہ ایسا کرنے کی جرت نہ ہو۔ صدیق بلوچ کو انگریزی، اردو، بلوچی اور سندھی زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا۔ انہوں نے انگریزی زبان میں دو کتابیں لکھیں جو اس صوبے کی سیاست اور معیشت پر گراں قدر معلومات کا خزانہ ہیں۔

میری ان سے دوستی بلوچستان میں طویل قیام کے دوران بلوچستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کونسل کے پلیٹ فارم سے ہوئی۔ وہ کونسل کے صدر بھی رہے۔ صحافتی اداروں کے فروغ اور صحافیوں کی بہبود کے لئے انہوں نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ صوبے کے سیاسی صحافتی اور علمی و ادبی حلقوں میں اپنے نظریات کی وجہ سے ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔

بلوچستان کے حقوق کی جدوجہد میں ان کا قلمی ہی نہیں، عملی کردار بھی لائق ستائش ہے سردار عطا اللہ مینگل، نواب اکبر بگٹی، نواب خیر بخش مری، خان عبدالصمد اچکزئی اور دوسری قد آور سیاسی شخصیات سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ گزشتہ ربع صدی میں کئی نامور صحافی بلوچستان کے اخبارات سے منسلک رہے۔

ان میں سے سید فصیح اقبال،ملک محمد رمضان، ملک محمد پناہ، بابو عبدالرحمن کرد، نور محمد پروانہ، سلطان صابر، عبدالکریم سورج، ابراہیم خلیل، امداد نظامی، میاں افتخار یوسف، جمیل الرحمان، اے آر جمالی اور اکرام اللہ خان یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اب صدیق بلوچ بھی رخصت ہوئے۔ اس خوش کلام، خوش اخلاق اور خوش لباس انسان کو زمانہ برسوں یاد رکھے گا۔

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی

بشکریہ روزنامہ جنگ اور مجید اصغر