کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر228مانیٹرنگ ڈیسک)بلوچستان کے زلزلے سے متاثرہ ضلع آواران اور کیچ میں امدادی سر گرمیوں میں مصروف پاک فوج اور ایف سی کی ٹیموں پر ایک ہی دن میں پانچ حملوں میں دو فوجی جوان جاں بحق اور تین زخمی ہوگئے ، کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ نے واقہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے واقعہ میں چودہ ہلاکتوں کا دعویٰ کیا ہے ۔ گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے فوجی جوانوں پر حملوں کی مذمت کی ہے ۔ عسکری ذرائع کے مطابق بدھ کو زلزلہ متاثرہ آواران اور کیچ میں پاک فوج اور ایف سی کی ٹیموں پر مختلف مقامات پر پانچ حملے کئے گئے ۔ ایک حملے میں دو جوان جاں بحق اور تین زخمی ہوگئے جبکہ باقی چار حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ عسکری حکام کے مطابق بدھ کو پہلا حملہ آواران کی تحصیل مشکے کے علاقے جلواری میں اس وقت کیا گیا جب امدادی آپریشن میں مصروف پاک فوج کے 33ڈویژن کے اہلکار وہاں سے گاڑیوں میں گزر رہے تھے۔ دھماکا سڑک کنارے نصب بم کے ذریعے کیا گیا ۔ دھماکے میں جاں بحق اہلکاروں کی شناخت نائب صوبیدار ظہور اور سپاہی بشارت کے ناموں سے ہوئی ہے ۔ عسکری ذرائع کے مطابق پاک فو ج اور ایف سی اہلکاروں پر باقی حملے مشکے کے علاقے پھلوار، نوک جو ، کشگور اور کیچ کے علاقے ڈنڈار میں ہوئے جس میں نامعلوم حملہ آوروں نے راکٹ داغے اور دیگر چھوٹے ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ تاہم ان حملوں میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ آواران میں امدادی آپریشن میں مصروف فوجی ،نیم فوجی دستوں اور امدادی ٹیموں پر اب تک درجن سے زائد حملے ہوچکے ہیں تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ ایسے حملوں میں کوئی جانی نقصان ہوا ہے۔اس سے قبل مشکے میں ہی گذشتہ جمعرات کو امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے پاکستانی فوج کے میجر جنرل ثمریز سالک ، چیئرمین این ڈی ایم اے میجر جنرل سعید علیم ، وفاقی وزراء عبدالقادر بلوچ اور جام کمال کے ہیلی کاپٹر پر راکٹ بھی داغے گئے تھے۔ان حملوں کے باعث متاثرہ علاقے میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے امداد کی فراہمی منگل سے بند کردی گئی تھی اور سڑک کے راستے امدادی سامان کی ترسیل کو ترجیح دی گئی تھی ۔ عسکری حکام کا کہنا ہے کہ حملے جاری رہے تو بھر پور کارروائی کی جائے گی تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کارروائیوں کے باوجود امدادی آپریشن جاری رہے گا اور سامان کی ترسیل سی ون تھرٹی طیاروں اور گاڑیوں کے جاری رہے گی۔ ادھر بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے تازہ حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر نے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مشکے کے قریبی پہاڑوں میں فوج کی دو گاڑیوں میں سوار اہلکاروں کا مذاحمت کاروں سے مقابلہ بھی ہوا ہے جس میں چودہ لوگ مارے گئے ہیں تاہم اس دعوے کی سرکاری ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔یاد رہے کہ چوبیس اور اٹھائیس ستمبر کو آنے والے دو زلزلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور وہاں امدادی کارروائیوں میں پاکستانی فوج کے دو ہزار جوان شریک ہیں۔زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کی تقسیم فرنٹیئر کور کی نگرانی اور حفاظت میں کی جا رہی ہے، جس کی مذاحمتی تنظیمیں مخالفت کررہی ہیں ۔ تاہم پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ علاقے میں امدادی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں گی اور پاک فوج پر حملے کئے گئے تو جوابی کارروائی کی جائے گی۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ضلع آواران کی تحصیل مشکے پھلوار میں سیکورٹی فور سز پر حملے کو افسوسناک قرار دیا ہے اور حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ زلزلہ متاثرین کو امداد کی فراہمی میں حائل رکاؤٹوں کے باوجود امدادی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں گی۔ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے بھی مشکے میں فوجی جوانوں پر بم دھماکے کے واقعہ کی شدید مذمت کی ہے اور اس واقعہ میں فوجی اہلکاروں کی شہادت پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں گورنر نے کہا کہ یہ فوجی جوان ہماری حفاظت اور خدمت کرتے ہیں خصوصاً شہید ہونے والے جوان زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے جارہے تھے۔ ان پر اس طرح حملے کرنا کسی طور بھی درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ان سپاہیوں کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں یہ فوجی جوان امداد وبحالی کے کاموں میں مصروف ہیں اور ان پر حملے بند ہونے چاہئیں۔ انہوں نے شہداء کے بلند درجات اور ان کے لواحقین کے لئے صبرجمیل کی دعا کی ہے۔