|

وقتِ اشاعت :   December 6 – 2013

court suprmeاسلام آباد(آن لائن) وزیر دفاع کے ذریعے وزیراعظم کی لاپتہ افراد کو پیش کرنے کی یقین دہانی پر سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ عدالت کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے لاپتہ افراد میں درجہ بندی کی اجازت نہیں دینگے ، آخر کہاں تک مذاق برداشت کریں ، ہمیں ہفتہ اتوار کو بھی بیٹھنا پڑا تو بیٹھیں گے لیکن ان لاپتہ افراد کی بازیابی تک کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ اللہ کی طرف سے ہماری اور سب کی آزمائش ہے ہم گھبرانے والے نہیں امتحان پر پورا اترینگے ، شوائد موجود ہیں کہ ریاستی عناصر ان لوگوں کی گمشدگی میں ملوث ہیں ، یہ لوگ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔ جمعرات کو لاپتہ افراد کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی جو شام پانچ بجے تک وقفے وقفے سے جاری رہی اور آخر میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کو وزیراعظم نواز شریف کافون آنے کے بعد عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی کہ لاپتہ افراد کو جمعہ کو پیش کردیا جائے گا ۔ اس موقع پر سماعت کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ہم رجسٹرار کو کل اچھی خبر دینگے لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اچھی خبر دیں عدالت کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ رویہ دیکھیں کہ آئی جی ایف سی کہتا ہے کہ میرا مورال ڈاؤن ہوتا ہے میں عدالت میں نہیں آتا ۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ لاپتہ افراد کی درجہ بندی کی اجازت نہیں دینگے ہم نے خود کو حتمی حکم جاری کرنے سے جس طرح روکا ہوا ہے وہ ہم ہی جانتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کو بتا دیں یہ ایک اہم معاملہ ہے باقی اجلاس چھوڑ کر اسے نمٹائیں اگر عدلیہ کی عزت نہیں رہے گی تو کیا ہم نے مٹی گارے کا کام کرنا ہے اس سے زیادہ ہم احتیاط نہیں کرسکتے لگتا ہے کہ حکم جاری کرنا پڑے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے صبر کی آزمائش جاری ہے اگر یہ لوگ مجرم ہیں تو قانون کے مطابق کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ۔ چیف جسٹس نے خواجہ آصف سے کہا کہ آپ ہمیں بتائیں جس کو کہیں ہم بلا لیتے ہیں ہفتہ اتوار کو بھی بیٹھنا پڑا تو بیٹھیں گے اور اس معاملے کی مکمل سماعت کرکے چھوڑیں گے بار بار کہہ رہے ہیں کہ تمام لوگوں کی بازیابی تک کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے لاپتہ افراد کو پیش کیا جائے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ اللہ کی طرف سے ہماری اور سب کی آزمائش ہے اللہ تعالیٰ نیک بندوں پر ہی آزمائش ڈالتا ہے ہم گھبرانے والے نہیں ۔ انشاء اللہ امتحان پر پورا اترینگے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تیاری کرکے بیٹھے ہیں ا ور آخر تک جائینگے ۔دن تھوڑے ہی سہی لیکن لاپتہ افراد کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے ۔ چیف جسٹس نے وزیراعظم کا فون آنے کے بعد کہا کہ اس معاملے میں اب وزیراعظم بھی ملوث ہوگئے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وزیر دفاع سربراہ حکومت کو شرمندہ نہیں کرینگے ۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ لگتا ہے کہ حکومت سرپرائز دینا چاہتی ہے ۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اتنے سرپرائز دیکھ چکے ہیں کہ اب کوئی چیز سرپرائز نہیں لگتی ہم ان کی بات مان لیتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ انہوں نے بندے پھر بھی نہیں دینے ۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ہم کچھ لوگ جمعہ کو پیش کردینگے لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ تمام لوگوں کو پیش کیا جائے ورنہ ہم آج ہی کوئی حکم جاری کردیتے ہیں اس پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے تمام 30لاپتہ افراد پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی جس پر جمعہ تک سماعت ملتوی کی گئی ۔ ایک موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس شواہد آچکے ہیں کہ ریاستی عناصر اس معاملے میں ملوث ہیں جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں لیکن قانون کی کتاب بالاتر ہے یہ لوگ نہیں اگر حکومت بے بس ہے تو بتا دے ہم خود کام کرلینگے معاملہ اتنا نہیں بگڑا ہم اسے ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ۔ قبل ازیں جمعرات کی صبح سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منیر اے ملک پیش ہوئے اور کہاکہ 30 میں سے 3 افراد مل چکے ہیں۔ سیکرٹری دفاع کچھ ایسی باتیں کرنا چاہتے ہیں جوکہ ان کیمرہ ہی ہوسکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم تب ہی سماعت کریں گے جب یہ لوگ بازیاب ہوجائیں گے۔ اگر دوبارہ اس کا مطلب صرف تاریخ لینا ہی ہے تو پھر ہم معذرت کرتے ہیں کہ ہم آپ کی بات نہیں مانیں گے۔ ہم میں سے کوئی بھی شخص اس معاملے کی چیمبر میں سماعت کرسکتا ہے مگر پہلے ان لوگون کو بازیاب کرکے پیش کیا جائے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ہم کچھ معلومات دینا چاہتے ہیں جو کھلی عدالت میں پیش نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ بند لفافے میں بھی تفصیلات دے سکتے ہیں اب تو اتھارٹیز کیخلاف ٹھوس شہادت موجود ہے ان کیمرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اے جی نے کہا کہ کل 30 تو بازیاب نہیں ہوسکے ہیں پانچ سے سات افراد کا پتہ چلایا جاسکا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں کہیں کہ ان کے نام دیں ان سے معلوم کرلیتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ معلومات بہت حساس ہیں ایسے نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بند لفافے میں معلومات دے دیں ہم اس کا جائزہ لے کر آپ سے سوال کرلیں گے‘ خالی باتوں پر آپ کو اکاموڈیٹ نہیں کرسکتے یہ ہماری آئینی ذمہ داری ہے کہ ہم شہریوں کی آزادی کا تحفظ کرسکیں۔ دو ہفتے گزر گئے ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پیش رفت ہوئی ہے ریاست بھی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ اس دوران خواجہ آصف نے قائم مقام سیکرٹری دفاع عارف عزیز سے عدالت کے اندر ہی مشاورت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہر کوئی اس ملک کا خیرخواہ ہے ہم کوئی دشمن نہیں بیٹھے ہوئے اگر ہم سے بھی باتیں چھپائی جارہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم قابل اعتماد نہیں ہیں یہ سب غلط ہے۔ ایک دو افراد ملک کی خیرخواہی کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آئی جی ایف سی کی پیشی کے حوالے سے ان کے افسر کا کہنا تھا کہ عدالتی احکامات پر عمل کرنے سے ان کی فورس کا مورال ڈاؤن ہوگا۔ وزارت داخلہ کے ذمہ دار افسر تو کوئی اور ہوں گے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پیرا ملٹری فورسز وزارت داخلہ کے تحت ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ ہم تمام معاملات سامنے نہیں رکھ سکتے یہ اوپن کورٹ کا معاملہ نہیں ہے۔ ہمارا مورال کا معاملہ نہیں ہم صرف سکیورٹی کی وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ تیس کا نمبر پورا کردیں بند لفافے میں معلومات دے دیں افراد کو آج لانا تو پڑے گا روزانہ تو ہم آپ کی معذرت نہیں سن سکتے۔ یاسین شاہ ولد کابل شاہ کا بتائیں کہ وہ کہاں ہیں۔ خواجہ آصف نے کہاکہ کچھ لوگ آزاد ہیں واضح بات نہیں کرسکتا‘ ممکن ہے کہ یاسین شاہ بھی آزاد ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ واضح شواہد موجود ہیں اس کے بعد آپ کی کسی طور معذرت قبول نہیں ہے تیس افراد پورے کریں۔ یہ بہت زیادہ وقت ہوگیا ہے۔ یہ اداروں کے حق میں بھی بہتر نہیں ہوگا۔ انڈر کور نام نہ دیں ہم نے اب تک رعایت اسلئے دی تھی کہ کچھ مشکلات ہوتی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنادیں وہ شواہد نوٹ کرلے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سب بیٹھ جائیں دوستوں کو باہر جانے کا کہہ دیں گے اسی عدالت کو ان کیمرہ بنادیں گے اب ریٹائرمنٹ کے قریب تو فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنانے سے رہے۔ اس دوران اٹارنی جنرل‘ وزیر دفاع اور قائم مقام سیکرٹری دفاع نے بھی آپس میں پھر سے مشاورت کی جبکہ چیف جسٹس سمیت دیگر ججز اب تک کی رپورٹس کا مطالعہ کرتے رہے۔ اے جی نے عدالت سے استدعاء کی کہ آدھا گھنٹہ دے دیں ہم کچھ مشاورت کرلیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم وقت دے چکے اب مزید وقت نہیں دیں گے جتنا اکاموڈیٹ کرنا تھا کرچکے۔ اے جی نے کہا کہ 35 افراد کو آرمی کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔ جسٹس خواجہ نے کہاکہ اب تک جو شہادت ہے وہ اس کے برعکس ہے ایک نام تو سامنے بھی آگیا دو نام ہم سامنے نہیں لائے آپ نے خفیہ رکھنے کی استدعاء کی تھی۔ ہم ٹرائل کی طررف نہیں جارہے شہادت ناقابل تردید ہے جو قانون کہتا ہے اس پر آگے چلتے ہیں۔ اے جی نے آدھا گھنٹہ پھر مہلت مانگی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کو نیچا دکھانے کے روئیے کو بھی برداشت نہیں کریں گے۔ کل ان کا رویہ دیکھا تھا کہ اس میں دو سو افراد شامل ہیں ہم کہتے ہیں پانچ سو ہوں جس عدالت میں چاہے لے جائیں اور ان کا ٹرائل کریں اور مثال بنادیں کہ جرم کرنے والوں کو یہ سزا دی جاتی ہے نتیجے کیساتھ آئیں ۔ وقفہ کے بعد سماعت شروع ہوئی تو خواجہ آصف نے ایک موقع پر اس معاملے سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ذمہ دار کا نام دے دیں ہم خود طلب کرلینگے خواجہ آصف کی طرف سے اس قسم کی بات چیت کے بعد ایک مرتبہ پھر عدالت نے چار بجے کا وقت دے دیا اور کہا کہ آج ہی لاپتہ افراد کو پیش کیا جائے چار بجے کے بعد جب سماعت شروع ہوئی تو دوران سماعت ہی وزیراعظم نواز شریف کا وزیر دفاع خواجہ آصف کو فون آیا اور وہ عدالت کی اجازت سے فون سننے کیلئے باہر چلے گئے بعد ازاں انہوں نے عدالت میں آکر بتایا کہ وزیراعظم اس معاملے میں دلچسپی لے رہے ہیں اور ہم جمعہ کو اچھی خبر دینگے ۔ خواجہ آصف کی طرف سے بار بار یقین دہانی پر عدالت نے سماعت آج جمعہ تک کیلئے ملتوی کردی ۔