|

وقتِ اشاعت :   December 6 – 2013

court suprmeاسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ نے وزیر دفاع کی جانب سے لاپتہ افر اد کے حوالے سے پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے 14لاپتہ افراد کو خفیہ طور پر (آج) پیش کرنے کا حکم دیدیا‘ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دئیے ہیں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ جہاں سے چلا تھا ابھی تک وہیں پر کھڑا ہے ‘ تمام افراد کو ایک ساتھ لے جایا گیا یہ تتر بتر کیسے ہوگئے‘دہشتگردی کیخلاف ہم فرنٹ لائن سٹیٹ ہیں‘ بلوچستان و دیگر علاقوں میں کئی افسران جانیں گنوا چکے ہیں‘ اسلام آباد میں بھی لوگ مکمل طور پر محفوظ نہیں‘عدالت کو جو فہرست دی ان میں وہ تمام افراد بھی شامل تھے جن کے بارے میں اب کہا جا رہا ہے کہ ان کا اب کچھ اتا پتا نہیں‘آئین کا آرٹیکل 3 کہتا ہے کہ کسی کو غیر قانونی حراست میں نہیں رکھا جا سکتا‘وزارت دفاع ان افراد کو لے کر گئی تھی‘پیش کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے‘ اگر انہیں آپ لے کر گئے تھے تو چھوڑا کیوں تھا‘ مفروضے بیان کیے جا رہے ہیں‘ عدالت مفروضوں پر یقین نہیں کرے گی‘ لاپتہ افراد کو ہر صورت عدالت میں پیش کیا جائے ۔ جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل 3رکنی بینچ نے لاپتہ افراد کے حوالے سے کیس کی سماعت کی ۔ اس موقع پر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، اٹارنی جنرل منیر اے ملک، قائمقام سیکرٹری دفاع جنرل (ر)عارف نذیر پیش ہوئے۔ وزیر دفاع نے 35 افراد کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ ان افراد میں سے 2 افراد کی طبعی موت ہو چکی ہے‘ 3 لاپتہ افراد وزیرستان میں ہیں، ایک سعودی عرب جا چکا ہے، 2 افراد حراستی مراکز میں قید ہیں ۔ لاپتہ افراد میں سے 7 کا کوئی پتہ نہیں جبکہ 7 افراد آزاد ہیں‘ 8 لاپتہ افراد افغانستان کے علاقے کنڑ میں ہیں، یاسین شاہ کا کوئی پتا نہیں چل سکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کی کیا شہادت ہے کہ وہ افغانستان چلے گئے ہیں، اس بات کی شہادت لے کر آئیں، آپ جب انہیں لے کر گئے تو کنڑ میں تو نہیں چھوڑا ہو گا۔ عدالت نے حکم دیا کہ حراستی مراکز میں موجود افراد کو پیش کریں ہم ان کا بیان ریکارڈ کریں گے۔ چیف جسٹس نے خواجہ آصف سے کہا کہ35افراد کی فوج کو حوالگی کے ثبوت بھی موجود ہیں، کیا آپ لاپتہ افراد کے نام اور حراستی مراکز کے نام بتا سکتے ہیں۔ خواجہ آصف نے عدالت سے استدعا کی کہ 35لاپتہ افراد کی فہرست پیش کرنے کی اجازت دی جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فہرست سے پہلے لاپتہ افراد کو پیش کریں۔وزیر دفاع نے بتایا کہ افغانستان جانے والے افغانستان کے علاقے کنڑ میں جانے والے 8 افراد کے بارے میں نا مکمل اطلاعات ہیں کہ وہ مختلف جنگجو گروپوں کے ساتھ مل کر دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں اور ان میں سے 4 افراد کو پہلے رہا بھی کیا گیا تھا۔عدالت نے استفسار کیا کہ جس شخص کے بارے میں یہ کیس شروع ہوا تھا وہ لاپتہ یٰسین شاہ کہاں ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا کے حراستی مرکز میں رکھے جانے والے قیدیوں کی فہرست میں یٰسین شاہ کا نام بھی تھا۔وزیر دفاع نے بتایا کہ ابھی تک اس شخص کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران بارہا موقع پر وزارت دفاع کے اعلیٰ افسران جن میں میجر محمد علی، گر وپ کیپٹن محمد عرفان پیش ہوتے رہے نے عدالت کو جو فہرست دی ان میں وہ تمام افراد بھی شامل تھے جن کے بارے میں اب کہا جا رہا ہے کہ ان کا اب کچھ اتا پتا نہیں۔آئین کا آرٹیکل 3 کہتا ہے کہ کسی کو غیر قانونی حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔حراستی مراکز میں رکھے جانے والے قیدیوں کو بھی پیش کرنا ضروری ہے۔ ان 35 افراد کو جیل سے حراستی مرکز منتقل کیا گیا تھا اور جیل سپرنٹنڈنٹ آصف نے یہ رپورٹ آئی جی جیل خانہ جات خیبرپختونخوا کو بھی بھیجی تھی کہ صوبیدار امان اللہ بیگ ان افراد کو جیل سے لے کر گئے اور مالاکنڈ حراستی مرکز منتقل کیا۔ جیل کے ریکارڈ کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی تھیں۔اب بتایا جا رہا ہے کہ ان میں سے فلاں آدمی کنڑ چلا گیا عدالت اسے نہیں مان سکتی۔ وزارت دفاع ان افراد کو لے کر گئی تھی۔پیش کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ اگر انہیں آپ لے کر گئے تھے تو چھوڑا کیوں تھا۔ مفروضے بیان کیے جا رہے ہیں۔ عدالت مفروضوں پر یقین نہیں رکھتی ۔یہ بیان حلفی قبول نہیں کیا جا سکتا۔پورے33 آدمی گن کر عدالت میں پیش کرے۔جنرل کیانی کے دور میں اڈیالہ جیل سے حراستی مرکز منتقل کیے گئے 11افراد میں سے 7افراد کو عدالتی احکامات پر پیش کیا گیا تھااس وقت بھی یہی اسٹیبلشمنٹ موجود تھی۔وزیر دفاع نے کہا کہ فراہم کی گئی لسٹ میں سے 20 افراد کی لوکیشن کے بارے میں آج عدالت کو بتا سکتے ہیں۔ معاملہ ابھی مکمل حل نہیں ہوا۔ ایک ہفتے میں ان کو تلاش کیا گیا۔9 اور 10 سال سے دہشت گردی کی جنگ جاری ہے۔ انٹیلی جنس اطلاعات پر بھروسہ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کنڑ میں 10 ہزار افراد بیٹھے ہیں تو آپ کو کیسے پتہ کہ ان میں وہ شخص بھی موجود ہو گاہمیں تو اپنے پڑوسیوں کا بھی پتہ نہیں ہوتا، اگر ہمارا انٹیلی جنس نیٹ ورک اتنا وسیع ہے تو یہ اچھی بات ہے پھر تو آپ کو مکمل تفصیلات فراہم کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ایڈیشنل قائمقام سیکرٹری دفاع میجر جنرل ریٹائرڈ عارف نذیر نے بتایا کہ وزارت دفاع نے عدالت کے سامنے 2دسمبر کو جو موقف رکھا تھا اب بھی اس موقف پر قائم ہیں کہ یہ افراد خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں نہیں ہیں۔ صرف دو افراد حراستی مرکز میں موجود ہیں۔ اس سے پہلے شاید وزارت دفاع کے افسران نے نادانستہ طور پر کچھ غلط تفصیلات فراہم کر دیں تاہم 2 دسمبر کو بھی یہی بتایا تھا کہ مجوزہ 33افراد کسی خفیہ ادارے کے پاس نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سارے آپ کی تحویل میں ہیں۔ امان اللہ بیگ کہاں ہیں اگر آپ چاہتے تو آج ہر آدمی کو پیش کر سکتے تھے ۔ کنڑ والوں کو بھی پیش کیا جا سکتا تھا اگر پانچ سال بعد بھی یہی واقعات رونما ہوتے ہیں تو پھر بڑی مشکلات پیش آئیں گی۔ کئی ممالک میں لاپتہ افراد کا معاملہ چلا ۔ ایک ملک میں تو اسی چارج پر پنوشے کا 45سال بعد ٹرائل کیا گیا تھا۔معاملہ یہاں ختم نہیں ہو رہا اس ملک میں امن لانا ہے جب حساب کتاب ہو گا تو آپ کیا جواب دیں گے۔ یہ ملک انشاء اللہ مزید دیر بد امنی کا شکار نہیں رہے گا۔ہر روز پتہ لگتا ہے کہ فلاں کو لے گئے جنوبی کوریا میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے حالانکہ موجودہ حکومت کے لوگوں کا تو حکومت میں آنے سے پہلے موقف بڑا واضح تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔وزیرستان والوں کو بلانا پڑے گا۔ وزیر دفاع نے جواب دیا کہ 2،3 روز کے اندر اندر معاملہ حل کر لیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اتنا وقت نہیں اور بھی کام کرنے ہیں جو سات آدمی آزاد ہیں ان کی سیکورٹی کے کیا معاملات ہیں، آئین چل رہا ہے آپ کیوں چاہتے ہیں کہ میڈیا کو کچھ نہ پتہ چلے کہ فلاں آدمی کہاں ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایک شخص جو اب آزادانہ زندگی گزار رہا ہے اس کا نام بتانے سے اس کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں ، اگر عدالت کمیشن بنا کر تحقیقات کرنا چاہیے یا مزید کارروائی چیمبر میں کی جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ 2ہفتے بعد بھی وہی پرانا جواب دیا جا رہا ہے۔5لوگ جن کے بارے میں نا مکمل معلومات دی گئی ہیں ان کی مکمل تفصیلات بھی عدالت کو پیش کی جائیں۔یٰسین شاہ کا ابھی تک کچھ نہیں بتایا جا رہا۔اس دوران ایک خفیہ رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ عدالت نے کہا کہ اس خفیہ رپورٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے یہ لوگوں کی آزادی کا سوال ہے۔ انہیں ہر صورت پیش کرنا پڑے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہر لمبا سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے ، دہشت گردی معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم فرنٹ لائن سٹیٹ ہیں۔ بلوچستان و دیگر علاقوں میں کئی افسران جانیں گنوا چکے ہیں۔ اسلام آباد میں بھی لوگ مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نئی روایات اور نئے اصولوں کو جنم دے رہے ہیں وہ دائمی ہوں گے۔ جھوٹ کو یاد رکھنا پڑتا ہے لیکن سچ کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں۔19-Aبہت کم ملکوں میں ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سب کچھ اوپن نہیں ہو گا تو بد گمانیاں پیدا ہوں گی۔بعد ازاں عدالت نے عبوری حکم سناتے ہوئے 14افراد کو (آج) جسٹس امیر ہانی مسلم کے چیمبر میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے کہا کہ فوج کے ان افراد کو بھی پیش کریں جو تمام لاپتہ قیدیوں کو اپنے ساتھ حراستی مراکز میں لے کر گئے۔ مقدمے کی مزید سماعت 9 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔