|

وقتِ اشاعت :   December 10 – 2013

cjpاسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں(آج)منگل کو فیصلہ سنانے کا عندیہ دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو بازیاب افراد پیش کرنے کیلئے 24 گھنٹوں کی آخری مہلت دے دی اور اٹارنی جنرل منیر اے ملک کو ہدایت کی ہے کہ وہ حکومت کو بتائیں کہ یہ ایک بہت ہی سنجیدہ اور ہنگامیمعاملہ ہے‘ لوگوں کو لاپتہ کرنا سنگین جرم ہے‘ فیصلہ دے دیا تو اس کے نتائج سنگین بھی ہوسکتے ہیں جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دئیے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ میرے ریٹائر ہونے کے بعد لاپتہ افراد کا معاملہ ختم ہوجائے گا‘ میرے پاس 60 گھنٹے باقی ہیں اور یہ 60 گھنٹے 60 سال کی طرح ہیں‘ قانون پر عملدرآمد کرواکر رہیں گے‘ قانون جبری گمشدگی کی اجازت نہیں دیتا‘ وزیراعظم چاہیں تو یہ معاملہ چوبیس گھنٹوں میں حل ہوسکتا ہے،وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے ذمہ دار ہیں۔محض ٹاسک فورس بنانے سے کچھ نہیں ہوگا‘ لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے چاہے معاملہ فاٹا یا پاٹا کا ہی کیوں نہ ہو‘ اعلی عدلیہ بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے تمامتر اختیارات رکھتی ہے‘ جو بات سب کو سمجھ آگئی وردی والوں کو نہیں آرہی‘ وردی کا احترام رہنے دیں‘ ہم ان کا اتنا خیال رکھ رہے ہیں وہ کیوں خیال نہیں کررہے؟‘ وزیراعظم اور وزیر دفاع تک کو معاملے کا علم ہے اس کو ایسے نہیں چھوڑ سکتے‘ ہر بات پر کمیشن نہیں بناسکتے‘ اگر برطانیہ اپنے لوگوں کے تحفظ کیلئے قانون بناسکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں‘ جسٹس جواد نے کہا کہ حکومت کو آئے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا مگر ابھی تک لاپتہ افراد بارے قانون سازی کیوں نہیں کی گئی جبکہ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کو بتایا ہے کہ اعلی عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے فاٹا اور پاٹا میں بھی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔سیکرٹری دفاع نے کہا کہ آپ کے دباؤکی وجہ سے ہم نے دن رات ایک کیا ہوا ہے‘ تمامتر اقدامات کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے یہ دلائل پیر کے روز دئیے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف عدالت میں پیش ہوئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے حکم پر عملدرآمد نہیں کیا گیا آپ نے 14 افراد کو پیش کرنا تھا ہم ہر روز بند کمرے میں سماعت نہیں کرسکتے۔ اے جی نے کہا کہ دو افراد جو انتقال کرگئے ہیں ان کے بارے میں ان کیمرہ بتاسکتے ہیں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ کل مزید دو افراد پیش کردیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کو موقع دیا۔ یاسین شاہ کا کیا ہوا جس کیلئے سارا میلہ لگا۔ قائم مقام سیکرٹری دفاع نے کہا کہ پوری کوشش کررہے ہیں‘ سراغ لگالیا جائے گا تاہم اس میں کچھ وقت لگے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون دکھادیں جس کے تحت لوگوں کو اٹھایا جاسکتا ہے۔جسٹس جواد نے کہاکہ یاسین شاہ کا بھائی ہر سماعت پر آتا ہے مجھے اسے دیکھ کر شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جو حراستی مراکز قائم کررکھے ہیں وہ آرٹیکل 10 سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں۔ فوج بھی قواعد کے تحت آرٹیکل 245 کے تحت کام کرتی ہے جس کے مطابق فوج سول انتظامیہ کی مدد کرتی ہے۔ اے جی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاس میں قانون سازی کی جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم چاہیں تو یہ معاملہ چوبیس گھنٹوں میں حل ہوسکتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ چھ ماہ ہوگئے پارلیمنٹ کو آئے ہوئے قانون سازی میں اتنا وقت نہیں لگتا۔ سیکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ کام تو 26 نومبر کے بعد ہی شروع کیا گیاہے وہ کوشش کررہے ہیں کہ جب تک لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہوں گے ہم کوششیں ترک نہیں کریں گے۔ دو افراد شام تک راولپنڈی پہنچ جائیں گے۔ سات افراد پیش کردئیے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم قانون کے مطابق ان افراد کی بازیابی کے ذمہ دار ہیں۔ جبری گمشدگی کے حوالے سے معاہدے موجود ہیں۔ قائم مقام سیکرٹری دفاع نے کہا کہ فوج کیساتھ سول اداروں کے تعاون کے حوالے سے آرٹیکل 245 کے تحت نوٹیفکیشن آچکا ہے جس کے تحت انہیں اضافی اختیارات حاصل ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نوٹیفکیشن دکھائیں۔ اے جی نے کہا کہ کسی سپریم کورٹ کے جج پرمشتمل کمیشن بنادیں یہ کام عدالت نہیں کمیشن کا ہے۔ نوٹیفکیشن پیش نہیں کرسکتے۔اس پر سیکرٹری دفاع نے ساڑھے گیارہ بجے تک کا وقت مانگا جس پر عدالت نے کہا کہ یہ بچوں کا کھیل نہیں پہلے بھی کافی وقت دے چکے ہیں۔ وقفے کے بعد اٹارنی جنرل اور قائم مقام سیکرٹری دفاع عدالت میں پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بتایا کہ قواعد و ضوابط ضرور موجود ہیں تاہم جو سیکرٹری دفاع نے کہاکہ اس حوالے سے کوئی نوٹیفکیشن موجود نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کس کی ہدایت پر کہا تھا کہ یہ آرٹیکل 245 کے تحت سول اداروں کی معاونت کیلئے فوج موجود ہے۔ سیکرٹری دفاع نے کہا کہ اس حوالے سے نوٹیفکیشن کی نہیں ہدایات کی ضرورت ہوتی ہے اس حوالے سے صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ اے جی نے کہا کہ 247(4) کے تحت ریگولیشنز جاری کی گئی تھیں جو 27 جون 2011ء کو جاری کی گئی تھیں جو خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں پر قابل عمل ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایکشن پرانا ہے۔ اے جی نے کہا کہ اس کا تعلق فروری 2008ء سے ہے اسی کو آگے بھی جاری رکھا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریگولیشن کا دیباچہ پڑھنے کو کہا جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ جو لوگ بیرونی مدد کے تحت پاکستانی حدود میں کوئی کارروائی کرتے ہیں خاص طور پر قبائلی علاقوں میں تو ان کیخلاف کارروائی کرنے کیلئے فوج کو سول اداروں کی مدد حاصل ہونے کی منظوری دی گئی تھی۔ ملکی سالمیت کو برقرار رکھنے کیلئے یہ اقدام کیا گیا تھا۔246(4) میں پاٹا جبکہ 247(5) میں وفاقی حکومت اور فاٹا کے دیگر علاقوں کی بات کی گئی ہے۔ یہ اصلاحات صدر مملکت نے جاری کی تھیں۔ صوبائی گورنر صدر مملکت کے ذریعے اپنے علاقے میں اس طرح کی اصلاحات کا نفاذ کرسکتے ہیں۔ ان اصلاحات کا مقصد امن کا قیام اور اچھی حکومت قائم کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ امن کیلئے آپ لوگوں کو محبوس نہیں کرسکتے کیونکہ آرٹیکل 10 اس کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ یہاں معاملہ حراست میں رکھے جانے کا ہے۔ کیا یہ بھی وزارت دفاع کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ لوگوں کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جائیں۔ اے جی نے کہا کہ ریگولیشنز میں ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے۔ روحیفہ کیس میں بھی آپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اگر فوج ان ریگولیشنز کے تحت کام نہیں کرتی تو پھر اعلی عدلیہ کو اس کیخلاف کارروائی کا اختیار ہے۔ 247(7) کے تحت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کو ان معاملات میں مزید اختیارات دئیے گئے ہیں۔