سلام آباد (آزادی نیوز)پاکستان میں جوہری توانائی کے کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کراچی میں دو جوہری بجلی گھروں کی تعمیر پر مقامی ماہرین کے خدشات کو مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا موقف ہے کہ اِن ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کی منصوبہ بندی میں تمام ضروری قواعد و ضوابط کا خیال رکھا گیا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے کراچی کے ساحلی علاقے میں دو جوہری بجلی گھر بنانے کا اعلان کیا تھا جس کی ابتدائی رپورٹ پر ماہرین نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اِن بجلی گھروں کی تعمیر سے قبل تیار کی جانے والی رپورٹوں میں سب سے پہلے سائٹ کی جائزہ رپورٹ تیار کی جاتی ہے جس میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ جوہری بجلی گھروں کی مجوزہ جگہ پر زلزلے اور سمندری طوفانوں کا خدشہ ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور جوہری امور کے ماہر اے ایچ نیّر کا کہنا ہے: ’تاریخ میں اب تک ایک یا دو مرتبہ کراچی کے ساحل کے پاس بلوچستان کے ساحل پر سونامی آ چکے ہیں۔ یہ ویسے سونامی نہیں تھے جیسے جاپان میں آئے لیکن پھر بھی خاصے طاقتور تھے۔‘ جوہری طبیعات کے استاد پرویز ہود بھائی کہتے ہیں کہ کسی بھی حادثے کے نتیجے میں کراچی میں 40 کلومیٹر اندر تک کی فضا آلودہ ہو جائے گی اور لوگوں کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ اْن کا کہنا تھا: ’یہ بہت بڑے پلانٹ ہیں اور اتنے بڑے پلانٹ خود چین نے اس سے قبل نہیں بنائے ہیں اور یہ پہلا ماڈل ہوگا جو پاکستان میں لگایا جائے گا۔ یہ تو ایک تجرباتی ماڈل ہے اور اِس میں حفاظتی تدابیر کا ہمیں علم نہیں۔‘ \”یہ جوہری بجلی گھر انتہائی جدید طرز پر بنیں گے۔ اِن میں کسی بھی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتہائی جدید آلات نصب ہوں گے۔۔۔ان ایٹمی بجلی گھروں کے لیے ایسی احتیاطی تدابیر بھی کی گئی ہیں جو عالمی تجربے سے حاصل ہوئی ہیں۔\” تاہم پاکستان میں جوہری بجلی پیدا کرنے کے ذمہ دار ادارے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ڈائریکٹر اور اِس شعبے کے ماہر غلام رسول اطہر نے میڈ یا کو بتایا کہ کراچی میں لگائے جانے والے بجلی گھروں کی تنصیب کے سلسلے میں تمام قواعد و ضوابط کا خیال رکھا گیا ہے۔ اْن کا کہنا تھا ’اِن جوہری بجلی گھروں کی باقاعدہ منظوری تمام متعلقہ محکموں مثلاً پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی، پلاننگ کمیشن اور ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی سے لی گئی ہے۔ اِس عمل کو مکمل ہونے میں تین سے پانچ سال کا عرصہ لگا ہے۔ تمام کام باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے اور ماحولیاتی اور ارضیاتی تحقیق کے بعد یہ منصوبہ شروع ہوا ہے۔‘ پرویز ہود بھائی کا کہنا ہے کہ اگر کسی بھی حادثے یا قدرتی آفت کی صورت میں اِن مجوزہ جوہری بجلی گھروں کا نظام تباہ ہوا تو شہر میں افراتفری پھیل سکتی ہے: ’تابکاری کے اثرات بہت زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں کیونکہ اِن بجلی گھروں میں ٹنوں کے حساب سے جوہری مادہ ہوتا ہے۔ اگر اس مادے کا صرف پانچ فیصد بھی خارج ہو تو کراچی کے لوگوں کے لیے بہت خطرناک ہوگا۔‘ اٹامک انرجی کمیشن کے غلام رسول اطہر نے اِس خیال کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ’یہ جوہری بجلی گھر انتہائی جدید طرز پر بنیں گے۔ اِن میں کسی بھی غیر یقینی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے انتہائی جدید آلات نصب ہوں گے۔‘ ان کے مطابق ’اِن ایٹمی بجلی گھروں کے لیے ایسی احتیاطی تدابیر بھی کی گئی ہیں جو عالمی تجربے سے حاصل ہوئی ہیں۔‘ خیال رہے کہ پاکستان میں جوہری بجلی گھر لگانے کا یہ پہلا تجربہ نہیں۔ کراچی میں ہی اِس سے قبل ’ کینپ‘ نامی 80 میگا واٹ کا ایک پلانٹ پہلے سے کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ چشمہ کے مقام پر لگائے جانے والے جوہری بجلی گھر سی ون اور سی ٹو قومی گِرڈ کو 650 میگا واٹ کے قریب بجلی فراہم کر رہے ہیں جبکہ چشمہ کے ہی مقام پر مزید دو جوہری بجلی گھر سی تھری اور سی فور پر بھی کام جاری ہے جو سنہ 2016 میں مکمل ہوں گے۔۔