اسلام آباد (آزادی نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق فوجی صدر کی طرف سے اْن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق قائم کی جانے والی خصوصی عدالت، اس خصوصی عدلت میں موجود ججز اور اس مقدمے کے پراسیکوٹر کے خلاف دائر کی جانے والی تینوں درخواستیں مسترد کرد ی ہیں۔ جسٹس ریاض احمد خان پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے اپنے مختصر حکم نامے میں ان تینوں درخواستوں کو مسترد کردیا ہے تاہم اس فیصلے میں درخواستوں کو مسترد کیے جانے کی وجوہات نہیں بتائی گئی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے ان تینوں درخواستوں کے مسترد ہونے کے بعد سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی چوبیس دسمبر کو خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہونے کا امکان ہے۔ پرویز مشرف کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس عدالتی حکم نامے کو چیلنج کریں گے۔ جسسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے ملحقہ نیشنل لائبریری میں پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرے گا اور اس موقع پر عمارت کے اردگرد سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جا ر ہے ہیں۔ پرویز مشرف نے اپنی درخواست میں مقدمہ سننے کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت کے لیے ججوں کی تقرری اور پراسکیوٹر کی تعیناتی کے طریقہ کار کو چیلینج کیاگیا تھا۔ یہ تین رکنی خصوصی عدالت سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل عرب، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس یاور علی اور بلوچستان ہائی کورٹ کی جسٹس طاہرہ صفدر پر مشتمل ہے۔ جسٹس فیصل عرب کو اس عدالت کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالت کے ججوں کا چناؤ وفاقی حکومت کا کام ہے جبکہ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے پانچ نام حکومت کو بھجوائے جس کا اسے اختیار نہیں۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت کے تینوں جج پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدام سے متاثر ہوئے تھے اس لیے ان حالات میں مقدمے کی منصفانہ کارروائی ہوتی نظر نہیں آتی۔ اس مقدمے کے لیے بیرسٹر اکرم شیخ کو وکیلِ استغاثہ مقرر کیا گیا ہے اور پرویز مشرف کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں ان کی تقرری پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ وہ سنہ 2009 میں سابق صدر کے خلاف سپریم کورٹ میں چلائے گئے مقدمے میں بھی وکیل تھے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ وکیلِ استغاثہ ایک جانبدار شخصیت ہیں اور اس مقدمے میں ان سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی امید نہیں۔ خیال رہے کہ سابق فوجی صدر نے دو دن قبل اس خصوصی عدالت کے اختیارات کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور اس معاملے کی سماعت پیر کو ہی جسٹس ریاض احمد خان پر مشتمل ایک رکنی بنچ کر رہا ہے۔ درخواست میں خصوصی عدالت کو کام سے روکنے کے لیے حکمِ امتناع جاری کرنے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 کا اقدام بطور آرمی چیف کیا تھا اس کے لیے ان کے خلاف مقدمہ صرف آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں ہی چل سکتا ہے۔ ’منصفانہ مقدمے کی امید نہیں‘ درخواست میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت کے ججوں کا چناؤ وفاقی حکومت کا کام ہے جبکہ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے پانچ نام حکومت کو بھجوائے جس کا اسے اختیار نہیں اور یہ کہ خصوصی عدالت کے تینوں جج پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدام سے متاثر ہوئے تھے اس لیے ان حالات میں مقدمے کی منصفانہ کارروائی ہوتی نظر نہیں آتی۔ خیال رہے کہ خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے سابق فوجی حکمران جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں 24 دسمبر کو طلب کیا ہے۔ حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے اور تین نومبر سنہ 2007 کو ملک میں ایمرجنسی لگانے پر غداری کا مقدمہ شروع کرنے کی استدعا کی تھی۔ پاکستانی آئین کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کرنے کی سزا موت اور عمر قید ہے۔ دریں اثنا سابق فوجی صدر کی جانب سے پاکستان کی سپریم کورٹ میں جولائی 2009 کے اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست بھی دائر کی گئی جس میں عدالتِ عظمیٰ نے سابق فوجی صدر کے تین نومبر سنہ 2007 کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ ابراہیم ستی ایڈوکیٹ کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں پرویز مشرف کا موقف سنے بغیر ہی فیصلہ سنایا گیا ہے لہٰذا اس پر نظرِ ثانی کی جائے۔ خیال رہے کہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے ایک مخصوص مدت طے ہوتی ہے اور اس معاملے میں یہ مدت گزر چکی ہے۔