|

وقتِ اشاعت :   January 3 – 2014

دہلی (آزادی نیوز) بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے کہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں دونوں ملک باہمی تعلقات میں اہم پیش رفت کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن پاکستان میں قیادت کی تبدیلی کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ وزیرِ اعظم من موہن سنگھ جمعے کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ سال 2014 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد وہ وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نہیں ہوں گے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے پہلے دور اقتدار میں آپ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ تاریخ ساز فیصلے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔ جب آپ مڑ کر دیکھتے ہیں تو کیا لگتا ہے کہ بہترین موقع ضائع ہوگیا؟ وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے کہا کہ ’جہاں تک میرے لیے ممکن تھا میں نے ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک مرحلے پر ایسا لگ رہا تھا کہ باہمی تعلقات میں اہم پیش رفت ہو سکتی ہے، لیکن پاکستان میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے، مثال کے طور پر جنرل مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا، کہ یہ عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔۔۔ لیکن میں اب بھی مانتا ہوں کہ اگر غربت، جہالت اور بیماریوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو ضروری ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات اچھے ہوں۔‘ اس سوال کے جواب میں کہ دس سالہ دور اقتدار میں انہوں نے پاکستان کا دورہ کیوں نہیں کیا، وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہا کہ’میری بہت خواہش ہے کہ میں پاکستان جاؤں، میں وہاں پیدا ہوا تھا، لیکن بحیثیت وزیراعظم میں اسی صورت میں جاسکتا ہوں جب کسی ٹھوس پیش رفت کے لیے حالات سازگار ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے کئی مرتبہ اس بارے میں سوچا ہے لیکن پھر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میرے دورے کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں لیکن میں نے عہدہ چھوڑنے سے پہلے پاکستان جانے کی امید ابھی نہیں چھوڑی ہے۔‘ \”جہاں تک میرے لیے ممکن تھا میں نے ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک مرحلے پر ایسا لگ رہا تھا کہ باہمی تعلقات میں اہم پیش رفت ہو سکتی ہے، لیکن پاکستان میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے، مثال کے طور پر جنرل مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا، کہ یہ عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔۔۔لیکن میں اب بھی مانتا ہوں کہ اگر غربت، جہالت اور بیماریوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو ضروری ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات اچھے ہوں۔۔۔\” وزیرِاعظم من موہن سنگھ کو پاکستان سے تعلقات کی بہتری کی پرزور وکالت کرتے رہے ہیں حالانکہ حزب اختلاف کی جانب سے انھیں قومی سلامتی کے سوال پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف اور سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری پہلے کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ایک مرحلے پر دونوں ملک کشمیر پر سمجھوتے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔ جنرل مشرف کے مطابق دونوں ملک کشمیر پر چار نکاتی سمجھوتے کو حتمی شکل دینے والے تھے جس میں کشمیر سے فوجوں کو ہٹانا اور لوگوں کو لائن آف کنٹرول کے آر پار آزادی کے ساتھ آنے جانے کی اجازت دینا شامل تھا۔ اس مبینہ سمجھوتے کی تفصیلات امریکہ کے ’نیویارکر’ میگزین نے بھی شائع کی تھیں۔ میگزین سے وابستہ صحافی سٹوین کول کے مطابق مذاکرات کا سلسلہ 2004 میں شروع ہوا تھا اور فریقین سمجھوتیکے بہت قریب تھے لیکن یہ عمل 2007 میں تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔ سٹیون کول کے مطابق اس سمجھوتے کے تحت دونوں ملک کشمیر سے بتدریج اپنے فوجیں ہٹانے اور لائن آف کنٹرول کے راستے کھلی تجارت اور عام لوگوں کی آمد ورفت کی اجازت دینے پر رضامند تھے لیکن پھر جنرل مشرف سیاسی مشکلات میں گھر گئے اور معاہدے کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی۔ وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بنے تو یہ تباہ کن ہو گا۔ وزارت عظمیٰ کیعہدے کے لیے گجرات کے متنازع وزیراعلیٰ نریندر مودی حزبِ اختلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار ہیں۔ وزارت عظمی کے لییحزب اختلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار نریندر مودی کیبارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر وہ وزیر اعظم بنتے ہیں تو یہ ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔۔۔اگر مضبوط وزیراعظم بننے کا مطلب یہ ہے کہ میری نگرانی میں احمد آباد کی سڑکوں پر فساد ہوں تو میں ایسا مضبوط وزیر اعظم نہیں بننا چاہتا۔‘ من موہن سنگھ نے یہ اعلان ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ عموماً من موہن سنگھ پریس کانفرنس نہیں کرتے اور اپنے پورے دورِ حکومت میں یہ ان کی تیسری پریس کانفرنس تھی۔ ان پر اکثر یہ تنقید بھی کی جاتی ہے کہ انھیں حکومت سے متعلق معاملات پر بہت کم معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ جمعرات کے روز حزبِ مخالف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیئر رہنما ارن جیٹلی نے کہا تھا کہ من موہن سنگھ کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ ان کے خیال میں تاریخ ان کے بارے میں کیا کہے گی۔ ان کا اشارہ وزیراعظم کی جانب سے بدعنوانی کے خلاف ’ناکامی‘ اور آئینی اداروں کی ’پامالی‘ کی طرف تھا۔ ارن جیٹلی نے پوچھا کہ ’چونکہ ان کی حکومت کو انتہائی بدعنوان سمجھا جاتا ہے، ان کے خیال میں کہاں کمی رہ گئی کہ وہ اس انتہائی اہم مسئلے پر اثر انداز نہ ہو سکے؟‘ گذشتہ چند سالوں میں حکومت کو متعدد بدعنوانی کے الزامات کا سامنا رہا ہے اور نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لوگوں کی حکومت سے ناراضگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔حال ہی میں ہوئے ریاستی انتخابات میں کانگریس نے بی جے پی سے متعدد سیٹیوں پر شکست کھائی ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا امکان کم ہی ہے کہ کانگریس عام انتخابات تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت کر پائے گی۔