|

وقتِ اشاعت :   January 13 – 2014

کراچی(آزادی نیوز) موبائل فون کمپنیوں نے کراچی کی فرنچائزز پر متواتر چھاپوں اور موبائل کمپنیوں کے عملے کو ہراساں کرکے بھاری رقوم بٹورنے کے رجحان کو سازگار کاروباری ماحول کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے حکومت سے فرنچائزز کے خلاف جاری غیرقانونی کارروائیوں کو روکنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے حکومت کو ارسال کردہ خط میں تھری جی لائسنس کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لیے موزوں کاروباری ماحول کی ضمانت مانگ لی گئی ہے۔ انڈسٹری ذرائع کے مطابق کراچی میں موبائل فون کمپنیوں کی 150سے زائد فرنچائزز قائم ہیں جن میں سے 15سے 20 فرنچائزز غیرقانونی سموں کی فروخت کے نام پر کارروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ فرنچائزز کی جانب سے ایک ہفتے سے زائد تک کی جانیوالی ہڑتال کے باوجود فرنچائزز کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اب تک کی جانے والی تمام کارروائیاں جمعہ کے روز کی گئیں تاکہ عدالتوں سے رجوع نہ کیا جاسکے فرنچائز مالکان اور عملے کو حراست میں لے کر ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مبینہ طور پر بھاری رقوم کے عیوض رہائی عمل میں لائی گئی اس صورتحال سے فرنچائز مالکان اور عملے میں شدید بے چینی اور عدم تحفظ پایا جاتا ہے دوسری جانب فرنچائز کی بندش سے موبائل فون کمپنیوں کو بھی فروخت میں غیرمعمولی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑر رہا ہے۔ موبائل فون کمپنی کے نمائندے نے ’’روزنامہ آزادی ‘‘ کو بتایا کہ کراچی کے فرنچائزز کے ساتھ اب موبائل فون کمپنیوں کے سیلز پر مامور عملے کو بھی غیرقانونی طور پر ہراساں کیا جارہا ہے جس پر موبائل فون کمپنیوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ سیل پر مامو عملہ اپنے پاس موبائل فون سمیں رکھنے سے گریزاں ہے عملے کو خدشہ ہے کہ کسی بھی وقت سرکاری اہلکار فروخت کے لیے موجود سموں کو غیرقانونی قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کا جواز کھڑا کرسکتے ہیں۔ موبائل فون کی سموں کا موجود ہونا منشیات یا غیرقانونی اسلحے کی طرح ممنوع بنادیا گیا ہے۔ ادھر فرنچائزز مالکان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کو بھتا دینے کے ساتھ اب قانون نافذ کرنیو الے اداروں کے نام پر بھی بھتا دینا پڑرہا ہے اس سے بہتر ہے کہ فرنچائزز بند کرکے دوسرا کاروبار کیا جائے جو موبائل فون کمپنیوں کے لیے سراسر نقصان کا سبب بنے گا۔ اس حوالے سے پانچوں موبائل فون کمپنیوں نے مشترکہ طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے ذریعے حکومت سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیرقانونی کارروائیوں کے فوری سدباب کا مطالبہ کیا ہے کمپنیوں کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کمپنی کے سیلز چینل بالخصوص فرنچائزز اور ریٹیلرز کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے کے مجاذ ہیں تاہم کسی بھی فرنچائزی یا ریٹیلر کے خلاف ایکشن کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے تحت موبائل فون کمپنیوں کی مشاورت سے ایک طریقہ کار(ایس او پی) وضع کیا جائے۔ انڈسٹری ماہرین کے مطابق غیرقانونی سموں کی روک تھام کے لیے پاکستان ٹٰیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے فول پروف نظام متعارف کرادیا ہے۔ کراچی کے تمام فرنچائزز پر بائیومیٹرک سسٹم نصب کیے جاچکے ہیں اور اب ریٹیلرز کو بھی اس دائرہ کار میں لایا جارہا ہے۔ 20فروری تک فروخت کی جانے والی سموں کی ایکٹیویشن کے لیے تصدیق کے دہرے اور بعض اوقات تہرے ضابطوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ تمام ریٹیلرز، ہول سیلرز اور فرنچائزز اس نظام کے تحت نگرانی کے مربوط نظام میں جڑے ہوئے ہیں، اس لیے جعلی کوائف پر سم کی فروخت کا امکان تقریباً ختم ہوچکا ہے، البتہ عام انتخابات کے لیے جاری کی جانے والی ووٹر لسٹوں کے کوائف کے ذریعے سموں کی رجسٹریشن کا راستہ اب بھی کھلا ہے جس کی ذمے داری موبائل فون کمپنیوں پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ کراچی میں غیرقانونی سموں کی روک تھام کے نام پر شروع ہونیو الی کارروائی کے بعد تھری جی ٹیکنالوجی میں کی جانے والی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ انڈسٹری کے ماہرین کا سوال ہے کہ ریٹیلرز اور فرنچائزز کے ساتھ موبائل فون کمپنیوں کے عملے کو ہراساں کیے جانے سے کمپنیوں کی پہلے کی جانے والی سرمایہ کاری ہی داؤ پر لگی ہوئی ہے اور اب تھری جی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے بعد سیلز چینل میں کسی قسم کی رکاوٹ پاکستان میں ٹیلی کام انڈسٹری کی ترقی کے عمل کو روکنے کا سبب بن سکتی ہے۔