|

وقتِ اشاعت :   April 17 – 2014

کراچی (ظفراحمدخان) متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن اور قومی اسمبلی میں ایم کیوایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاکہ سویلین حکومت ، افواج پاکستان ، رینجرز، سندھ پولیس ایم کیوایم کے کارکنان کوموت کے فرشتوں( سادہ لباس اہلکاروں) سے تحفظ فراہم نہیں کرسکتی تو وہ ایک طرف ہوجائیں ۔پھر ہم ہوں گے اورمتحدہ کارکنوں کو لاپتا کرنیوالے سادہ لباس والے اہلکار ہوں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ سادہ لباس والے کتنے مردکے بچے ہیں ۔ صبر کا امتحان مت لیاجائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ ہمارا احساس محرومی احساس بیگانگی میں تبدیل ہوجائے ۔ہمارے سامنے سادہ لباس والے ہیں تو ہم بھی سادہ لباس پہن کر آئیں گے ۔کارکنان کی بازیابی کیلئے پریس کلب پر مظاہرے کو ٹریلر سمجھاجائے۔ کل فلم بھی چل سکتی ہے ۔فاروق ستارکاکہناتھاکہ آئین کی شق 4، 9، 10، 14کیلئے ہم احتجاجی مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس آئین کو لپیٹ کرعملی طور پر لپیٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ وفاقی ، صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آئین کی بالادستی ، قانون کی حکمرانی کو قائم کیاجائے ، آئین کی جن شقوں کی خلاف ورزی ہورہی ہے اسے روکاجائے یہ ہمارا مطالبہ بھی ہے ، انتبا اور وارننگ بھی ہے ۔انہوں نے اعلان کیا کہ آج (جمعہ) ایم کیو ایم کے تحت ملک بھر کے پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے زیراہتمام ایم کیوایم کے کارکنوں کی گرفتاریوں اور لاپتاکئے جانے کیخلاف کراچی پریس کلب پر منعقد احتجاجی مظاہرے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ اگر آنے والے چند دنوں میں لاپتا کئے جانے والے ایم کیوایم کارکنان بازیاب نہ ہوئے، ماورائے عدالت قتل کئے جانے والے کارکنوں کے قاتل گرفتار نہیں ہوئے تو اس کے بعد ہماری اگلی منزل ایک دھرنا نہیں بلکہ دھرنے ہی دھرنے ہوں گے ۔ ۔ مظاہرے سے رابطہ کمیٹی کے ارکان حیدر عباس رضوی ، اشفاق منگی، سندھ اسمبلی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈ ر خواجہ اظہار الحسن سمیت دیگرنے بھی خطاب کیا۔فاروق ستارکاکہناتھاکہ آئین کا آرٹیکل 4کے قانون کا یکساں اطلاق ہر پاکستانی کے شہری کا بنیادی حق ہے جسے بے دردی کے ساتھ پامال کیاجارہا ہے ،ایم کیوایم کے 25ماورئے عدالت کارکنان کا قتل اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 4کو پیروں تلوں روندھا جارہا ہے ، آئین کے آرٹیکل 9کی سنگین پامالی کی گئی ہے ، آئین کے اآرٹیکل 10جو گرفتاری کے بعد چوبیس گھنٹے میں قانونی مشیر اور اہل خانہ سے رابطے کا حق دیتا ہے وہ چھین لیا گیا ہے ،کالے قانون اور موئثر قانون میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف مؤثر قانون سازی کی جائے لیکن اس کی آڑ میں سیاسی انتقام لیاجائے گاتو ایم کیوایم تمام مظالم کے باوجود سر نہیں جھکائے گی اور ایم کیوایم انسانیت کے احترام اور تقدس کی پامالی کے قانون کو مسترد کرتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ڈیٹھ اسکواڈ ختم کرنے ہونگے ، موت کے فرشتے سادہ لباس میں بڑی بڑی سرکاری گاڑیوں میں بغیر شناخت کے ہمارے علاقوں میں آتے ہیں لیکن کسی ایک چھاپے میں کوئی مزاحمت نہیں ہوئی اور نہ ہی کارکنان کی جانب سے گولی چلائی گئی ہے ، اگر سویلین حکومت ، عدلیہ ، افواج پاکستان بے بس ہیں، دہشت گردوں اور کراچی کے طالبان کے اڈوں پر جاتے ہوئے ان کے پیر کپکپاتے ہیں ، ان علاقوں میں انہیں چھاپے کے ودران گولا بارود کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انہوں نے ویزراعظم نواز شریف ، اور صوبائی حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ ایم کیوایم 45کارکنان کو فی الفور بازیاب کرایاجائے ، انہیں رشتہ داروں ، وکلاء سے ملوایاجائے ، 25مارائے عدالت قتل کارکنان کے قتل میں جو بھی ملوث ہوں انہیں گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایاجائے ۔موت کے رقص اور خون کی ہولی کو روکاجائے ۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ کل ملک بھر میں ایم کیوایم کے لاپتہ کارکنان کی بازیابی کیلئے احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں جس میں ملک بھر کے محب وطن عوام، سول سوسائٹی ، وکلاء ،صحافی برادری اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کرکے انسانیت کے معاملے پر ایم کیوایم کا ساتھ دیں ۔ رکن رابطہ کمیٹی حیدر عباس رضوی نے کہاکہ وزیراعظم ہاؤس سے لیکر وزیراعلیٰ ہاؤس تک ارباب اختیار و اقتدارنے آج وہ مناظر دیکھے ہیں جو نائن زیرو روزانہ دیکھتے ہیں ، لاپتہ کارکنان کی مائیں،بہنیں ، بزرگ اور بھائیوں کی چیخیں اور فریادیں سنتے اسی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا کہ بہت چکا ہے اب یہ آہو وبکا میڈیا کے کیمرے کی آنکھ کے ذریعے ملک کے عوام تک پہنچ جانا چاہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں قانون کی عملداری مانگنا کیا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی پاداش میں ایم کیوایم کے کارکنان کو گرفتار کرکے لاپتہ کیاجارہا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پی پی اے کا کالا قانون ہم پر مسلط نہ کیاجائے اور اس کے ذریعے ہمارے کارکنان کو لاپتا کیاجارہا ہے ۔ پاکستان کی تاریخ بڑی بے رحم ہے ، ملک کی تاریخ نے یہ سیکھایا اوربتایا ہے کہ جس حکومت نے بھی اپنے اقتدار میں سیاہ قوانین کو اسمبلیوں میں پاس کرایا ہے سب سے پہلے خود وہی حکمراں اس قانون کی کی زد میں آیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم کے کارکنان مار دیئے گئے ہیں تو بھی بتایا جائے اور کہیں حراست میں رکھا گیا ہے تب بھی بتایاجائے اور انہیں عدالتوں پیش کرکے آئینی و قانونی حق کو پورا کیاجائے ۔ رابطہ کمیٹی کے اشفاق منگی نے کہاکہ احتجاجی مظاہرے میں شریک لاپتا کارکنان کے اہل خانہ مجسم فریاد بنے ہوئے ہیں اور غیر قانونی اور جواز گرفتاریوں کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے ارباب اختیار و اقتدارکو مخاطب کرتے ہوئے کہ آخر ایم کیوایم کے کارکنان کی ماؤں ،بہنوں ، بیٹیوں کو انصاف کب ملے گا ؟ انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم کے کارکنان کے اہل خانہ محب وطن پاکستانی ہیں اور ان کے آباؤ اجداد نے قیام پاکستان کیلئے لاکھوں جانوں کانذرانہ پیش کیا تھا۔انہوں نے کہاکہ غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرکے سندھ کے حالات بلوچستان طرز کے نہ کئے جائیں اگر یہ بھی ظلم و ستم کے باعث بھٹک گئے تو کیا ہوگاَ ؟ انہوں نے کہاکہ لاپتہ کارکنان کی بازیابی کیلئے 18اپریل جمعہ کو ملک بھرمیں احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے اور جب تک ہمیں انصاف نہیں ملے گا ہم عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہیں گے اور انصاف کے حصول کی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہاکہ اگر کوئی مجرم ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے ، کوئی قانون کی نظر میں مجرم ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے کیا یہ مطالبات پاکستان کے آئین کے خلاف ہیں لیکن افسوس کہ ملک کے تمام جمہوری ادارے صوبائی اسمبلی ، قومی اسمبلی ، سینیٹ ، سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ کے دروازوں پر ہم نے دستک دی ہے لیکن کوئی سنوائی نہیں ہے اور جب تک ایم کیوایم کا ایک ایک کارکن بازیاب نہیں ہوجاتا ہم مظاہرے کرتے رہیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ ماورائے قانون و آئین اقدامات سے امن قائم نہیں ہوسکتا اگر امن قائم کرنا ہے تو لوگوں گرفتار نہ کیاجائے اور لاشیں نہ دی جائیں ۔ انہوں نے کہاکہ لاپتا کارکنان کیلئے بنایا گیا کمیشن ہمیں ٹائم نہیں دے رہا ہے ہم کیا کریں اور کس کے پاس فریاد لیکر جائیں اگرلاپتا کارکنان کو بازیاب نہیں کرایاگیا تو احتجاجی مظاہرے روز کریں گے۔ لاپتا کارکن فاروق احمد کی والدہ محترمہ نے کہاکہ 4، اپریل کو پاس پورٹ آفس سے سفید کپڑوں میں سرکاری اہلکارو ں نے فاروق احمدکو اٹھایا ، اس کا کوئی جرم نہیں وہ معصوم ہے ،میں نے اپنے بیٹے کو سلائی کرکے پالا تھا ، میرا فاروق بیٹا واحد سہارا تھا ، مجھے چین اور سکون نہیں ملتا اور ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کی بازیابی کی امید میں اور اسے یاد کرکر کے مر جاؤں گی ، انہوں نے کہاکہ میرا بیٹا صرف ایم کیوایم کا کارکن تھا اور ایم کیوایم کا کارکن ہونا کوئی جرم تو نہیں ہے ۔انہوں نے وزیراعظم نوازشریف اور چیف جسٹس سے اپیل کی کہ وہ فاروق احمد سمیت ایم کیوایم کے تمام لاپتا کارکنان کو بازیاب کرائیں اور اچھی حکمرانی کا ثبوت دیں ۔ لاپتا کارکن محمد ارشاد کی والدہ محترمہ نے کہا کہ میرے بیٹے کو گارڈن کے علاقے سے رینجرز نے گرفتار کرکے لاپتا کردیا ہے ، اللہ کے واسطے میرے بیٹے کو بازیاب کرایاجائے ، میری وفاقی، صوبائی حکومت، چیف جسٹس پاکستان سے اپیل ہے کہ میرے بیٹے کو مجھ سے ملایا جائے اگر ایسا نہیں کیا جاسکتا تو ہمیں بھی گرفتار کرکے لاپتا کردیاجائے ، ایسا ظلم ہندوؤں نے بھی نہیں کیا تھا ، کارکنان پر بھیانک تشدد کیاجارہا ہے ، انہیں تڑپا تڑپا کر ماراجارہا ہے اور ایسے ظالم لوگ مسلمان نہیں کافر کہلانے کے مستحق ہیں ۔ لاپتا کارکن فرحان اہلیہ نے کہا کہ میرے شوہر گلشن اقبال اسکیم 33کے کارکن ہیں 2013، 7دسمبر کو سادہ لباس میں ملبوس اہلکارجو بغیر شناخت کی گاڑی یں سوار تھے گرفتارکیااور اس دن سے لاپتہ ہیں ۔ وفاقی و صوبائی حکومت کے حکام لاپتا کارکنان کے اہل خانہ کو خود آکر دیکھیں کہ کیا دہشت گردوں کے اہل خانہ ایسے ہوتے ہیں ، یہ کیسی گرفتاریاں اور سزائیں ہیں یہ ظلم و ستم اور غیر قانونی عمل فی الفور بند کرایاجائے ۔ انہوں نے خدا کا واسطہ دیتے ہوئے کہاکہ ہمیں ایم کیوایم کا کارکن ہونے کی سزا نہ دی جائے ۔ اس موقع پر فرحان کے بچوں نے بلک بلک روتے ہوئے کہاکہ ہمیں ہمارے پاپا چاہئیں اور ان کو بازیاب کرایاجائے ۔ لاپتاکارکن ارشاد کی بیٹی نے کہا کہ میرے ابو کو 2اکتوبر کو گارڈن کے علاقے سے رینجرز نے گرفتار کیا اور ان کا کچھ پتا نہیں ، میری وزیراعلیٰ ، ڈی جی رینجرز اوراعلیٰ حکام سے گزارش ہے کہ انہیں بازیاب کرایاجائے ۔ لاپتہ افرادکے اہل خانہ روتے ہوئے وزیرا عظم میاں محمد نواز شریف ، چیف جسٹس آف پاکستان ،چیف آف آرمی اسٹاف ،چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ،وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شا ،ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ سے اپیل کررہے تھے کہ خدا کے لیے ہمارے پیاروں کو ہم سے ملادو ،ہماری آنکھیں ان کو دیکھنے کیلئے ترس گئی ہیں ۔کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم بانیان پاکستان کی اولادیں ہیں ۔خدا کے لیے رحم کرو ۔خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ۔تم اہل زمین پررحم کرو گے تو خدا تم پر رحم کرے گا ۔اگر ہمارے ساتھ انصاف نہ ہوا تو مکافات عمل کا شکار ہوجاؤ گے۔