|

وقتِ اشاعت :   May 21 – 2014

واشنگٹن: پاکستان میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی کی جانب سے ایک ویکسینیشن مہم کا استعمال کیے جانے کے تین سالوں بعد امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ جاسوسی کے لیے اس طرح کی جعلی مہمات کا سہارا نہیں لے گی۔ یہ اعلان امریکا کے تیرہ ٹاپ میڈیکل سکولوں کے سربراہان کی مسلسل ایک سال سے جاری رہنے والی مہم کے نتیجے میں سامنے آیا۔ ان سربراہان نے جنوری، 2013 میں صدر بارک اوباما کے نام ایک خط میں نشاندہی کی تھی کہ سی آئی اے نے ایبٹ آباد میں ہیپاٹائیٹس بی کی ویکسین دینے کے لیے ایک پاکستانی ڈاکٹر کی خدمات حاصل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ سی آئی اے کو شبہ تھا کہ ایبٹ آباد کے ایک رہائشی کمپاؤنڈ میں اسامہ بن لادن اپنے اہل خانہ کے ساتھ چھپے ہوئے ہیں۔ امریکی ایجنسی نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اس ویکسین کے پردہ میں کمپاؤنڈ کے رہائشیوں کے ڈی این اے سیمپل اکھٹا کریں۔ خط کے مطابق اس وجہ سے پاکستان میں ویکسینیشن کے خلاف سخت ردّعمل دیکھنے میں آیا۔ ‘نو پولیو رضاکاروں کو مارا جا چکا ہے جس کی وجہ سے پولیو کے خلاف مہم ہفتوں بند رکھنی پڑی تھی’۔ خط میں مزید لکھا گیا کہ 2012 میں خسرہ سے 306 ہلاکتیں ہوئیں، جبکہ 2011 میں ایسی ہلاکتوں کی تعداد 64 تھی۔ وائٹ ہاؤس نے اس خط پر ایک سال کے بعد ردعمل ظاہر کیا اور سولہ مئی کو صدر اوباما کی انسداد دہشت گردی کی مشیر لیسا او موناکو نے جوابی خط میں لکھا کہ امریکا پولیو کے خاتمے کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کی بھرپورحمایت کرتا ہے۔ ‘آپ کے جنوری ، 2013میں لکھے گئے خط کے ردعمل میں صدر نے پولیو رضاکاروں کی سلامتی کے حوالے سے تشویش ظاہر کی ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہوں گی کہ سی آئی اےکے ڈائریکٹر نے اگست ،2013 میں ہدایات جاری کر دی تھیں کہ آئندہ ایجنسی رضاکاروں پر مشتمل ایسی ویکسینیشن مہموں کا کوئی آپریشنل استعمال نہیں کرے گی ‘۔ ‘اسی طرح ایجنسی ایسے پروگراموں کی مدد سے ڈی این اے یا دوسرے جینیٹک مواد بھی حاصل نہیں کرے گی۔ سی آئی اے کی یہ پالیسی دنیا بھر میں امریکی اور غیر امریکی پروگراموں پر لاگو ہو گی’۔ موناکو نے مزید کہا کہ اس خط کا متن عام کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ متعدد ویکسین رضاکاروں کی ہلاکت کے بعداقوام متحدہ نے 2012 پاکستان میں پولیو ویکسینیشن معطل کر دی تھی۔ پاکستانی طالبان ہیلتھ ورکرز پر امریکا کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ منگل کو سی آئی اے کے ایک ترجمان نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جان برینن نے پبلک ہیلتھ کمیونٹی کے تحفظات کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے ان کا تجزیہ کیا اور پھر فیصلہ کن کارروائی کی۔ یاد رہے کہ امریکی نیوی کمانڈوز نے مئی ،2011 میں ایک آپریشن میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے کچھ دنوں بعد ڈاکٹر آفریدی کو گرفتار کر لیا گیا تھا ۔