|

وقتِ اشاعت :   May 28 – 2014

واشنگٹن: امریکی صدر بارک اوباما نے رواں سال کے اختتام پر امریکی افوج کے انخلا کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کبھی موزوں ملک نہیں بن سکتا اور اسے پرامن بنانا امریکا کی ذمے داری نہیں۔ وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں خطب کے موقع پر اوباما نے رواں سال کے بعد 9 ہزار 800 امریکی فوجیوں کے افغانستان میں رہنے کا بھی اعلان کیا۔ یاد رہے کہ امریکا کے سینئر انتظامی افسر نے پہلئے ہی انکشاف کردیا تھا کہ صدر بارک اوباما منگل کو رواں سال امریکی افواج کے انخلا اور اس سال کے بعد صرف نو ہزار 800 امریکی فوجی افغانستان میں رہنے کے حوالے سے باضابطہ اعلان کریں گے۔ اوباما نے اس بات کا فیصلہ افغانستان کی بگرام ایئر بیس پر امریکی فوجی کمانڈرز سے اتوار کو ملاقات کے بعد کیا۔ یاد رہے کہ امریکا نے گیارہ ستمبر 2011 کو امریکا میں القاعدہ کے حملوں کے بعد افغانستان پر چڑھائی کردی تھی۔ اوباما نے اس موقع پر 2016 کے اختتام تک افغانستان سے مکمل انخلا کا بھی اعلان کیا۔ امریکی صدر نے مکمل انخلا کے حوالے سے ممکنہ تنقید کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا کہ افغان سیکورٹی فورسز نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کا دفاع کر سکتی ہیں۔ ‘ہمیں یہ بات مان لینی چاہیے کہ افغانستان کبھی بھی موزوں ترین جگہ نہیں ہو سکتی اور اسے موزوں ترین جگہ بنانا امریکی ذمے داری نہیں’۔ امریکی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ نئے افغان صدر دوطرفہ سیکورٹی کے معاہدے پر دستخط کر لیں گے جس پر اوباما امریکی افواج کے انخلا سے قبل دستخط کروانا چاہتے ہیں تاکہ افغان افواج کی تربیت کرنے کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لیے آپریشن کی کیے جا سکیں۔ آفیشل نے کہا تھا کہ موجودہ حالات میں اوباما کے نظریے کے مطابق نو ہزار 800 فوجی 2015 کے اختتام تک افغانستان میں رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2016 کے اختتام تک افغانستان میں امریکا کی موجودگی عراق کی طرح محض سفارتخانے تک محدود رہ جائے گی۔ افغانستان میں اس وقت 32 ہزار سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں۔ امریکا اس وقت نئے افغان صدر کی آمد کا منتظر جس کا انتخاب جلد ہونے کو ہے کیونکہ موجودہ صدر حامد کرزئی نے اوباما انتظامیہ کے ساتھ سیکورٹی معاہدے پر دستخط سے یکسر انکار کردیا تھا۔ لیکن افغان صدارتی انتخاب کے دو صف اول کے امیدواروں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی نے صدارتی منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی سیکورٹی معاہدے پر دستخط کا وعدہ کیا ہے۔ افغان صدارتی انتخابات کے دوسرے اور اہم ترین دور کا آغاز 14 جون کو متوقع ہے۔ اس موقع پر اوباما نے واضح کیا کہ اگلے سال افغانستان میں 9 ہزار 800 امریکی افواج کی موجودگی کا دارومدار کابل حکومت کی جانب سے سیکورٹی معاہدے پر ہو گا اور واضح کیا کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں امریکی افواج وہاں موجود نہیں رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ ہمارے دستوں کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے انتہائی اہم ہو گا اور امید ظاہر کی کہ معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔ ایک سینئر آفیشل نے کہا کہ دوطرفہ سیکورٹی معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی 2015 کے آغاز میں ہمارے 9800 فوجی ملک کے دیگر علاقوں میں موجود رہیں گے جن کو ہمارے نیٹو اتحادیوں اور دیگر شراکت داروں کی خدمات حاصل ہوں گی۔ ماہرین کے مطابق امریکیوں سمیت افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی کُل تعداد 12 ہزار کے لگ بھگ ہو گی۔ افغانستان میں موجود زیادہ تر امریکی فوجیوں کا رواں سال کے اختتام تک جنگ زدہ ملک سے انخلا ہو جائے گا جہاں اوباما نے اسے امریکی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ کا ذمے دارانہ اختتام قرار دیا ہے۔ اوباما نے منگل کو مزید کہا کہ ‘افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام کو ہی کرنا چاہیے، لیکن امریکا کیا کر سکتا ہے، ہم کیا کریں گے، ہم اپنے مفادات کی حفاظت کریں گے اور افغانستان میں دیرپا امن کے لیے ان کی معاشی مدد کریں گے’۔ انہوں نے افغانستان میں امریکی جنگ کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یہاں قیام امریکی عوام سے کہیں زیادہ طویل ہو چکا ہے، اب ہم نے جس کام کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام کرتے ہیں، جنگ شروع کرنے سے زیادہ اس کا اختتام مشکل ہوتا ہے۔