رواں مالی سال کے دوران حکومت کی معاشی کارکردگی پچھلے سال کی نسبت تو بہتر رہی ہے لیکن خود حکومت نے اپنے لیے جو اہداف مقرر کیے تھے ان میں سے بیشتر حاصل نہیں کیے جا سکے۔
یہ بات مالی سال 2013-2014 کے لیے جاری کیے گئے اقتصادی سروے میں درج اعداد و شمار سے سامنے آئی ہے۔
30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران معاشی ترقی کے بارے میں وزارت خزانہ کے اس اقتصادی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ اس سال اقتصادی ترقی کی شرح ہدف سے کم رہی۔
وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے اقتصادی جائزے کے اجرا کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ پچھلے سال بجٹ تقریر کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح کا ہدف 4.4 مقرر کیا گیا تھا جبکہ ترقی کی ریکارڈ شدہ رفتار 4.1 فیصد رہی۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ ملک میں غربت کی شرح 50 فیصد سے زائد ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کی نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
’اس غربت سے ملک کو نجات دلانے کے لیے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری حکومت کا پہلا سال آگ بجھانے کی کوششوں میں گزر گیا۔ اب ہم خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں پر توجہ دیں گے اور انھیں رعایتی نرخ (سبسڈیز) دی جائیں گی۔‘
انھوں نے غربت کی اصطلاح کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہر وہ پاکستانی جس کی روزانہ آمدن دو ڈالر سے کم ہے وہ خطِ غربت سے نیچے تصور کیا جاتا ہے۔
ٹیکس وصولی کی مد میں بھی حکومت اپنے مقرر کردہ ہدف تک نہیں پہنچ سکی اور مئی کے مہینے تک 1955 ارب روپے کے ٹیکس جمع کیے جبکہ پورے سال کے لیے 2475 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔
زرعی شعبے کے لیے ترقی کا ہدف 3.8 فیصد مقرر کیا گیا تھا جبکہ اس شعبے نے 2.12 فیصد کی رفتار سے ترقی کی۔
حکومت سرمایہ کاری کا ہدف (15.1 فیصد) بھی پورا نہیں کر پائی اور اس ملک میں سرمایہ کاری کی شرح کُل مقامی پیداوار کا 14 فیصد رہی۔
مہنگائی یا افراط زر کی شرح حکومت کے مقرر کردہ ہدف آٹھ فیصد سے زیادہ یعنی 8.6 فیصد تک رہی۔ پچھلے سال ملک میں مہنگائی کی شرح 9.6 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔
وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے پریس کانفرنس میں یقین دلایا کہ مہنگائی کی شرح میں اضافے کی افواہیں بے بنیاد ہیں: ’ہماری کوشش ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کم سے کم اضافہ ہو۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ افراط زر کی شرح دس فیصد تک نہیں پہنچے گی۔‘
اسحٰق ڈار نے ملکی معیشت کے لیے مقرر کردہ بیشتر اہداف حاصل نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہداف اس لیے حاصل نہیں ہوئے کہ حکومت نے بہت مشکل اہداف مقرر کیے تھے:
’ہم نے پچھلے سال اس لیے مشکل اہداف رکھے تھے تاکہ ہم سستی کا شکار نہ ہو جائیں اور ہدف حاصل کر نے کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت کریں۔‘
جہاں بہت سے شعبوں میں اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہو سکے، وہیں صنعتی شعبے، خاص طور پر بڑی صنعتوں نے نہ صرف پچھلے مالی سال کی شرح، بلکہ حکومت کے مقرر کردہ ہدف (4.5 فیصد) سے بھی زیادہ تیز رفتاری (5.8 فیصد) سے ترقی کی۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس تیز رفتار ترقی میں سب سے اہم کردار تعمیراتی شعبے نے ادا کیا جس نے 11 فیصد کی رفتار سے ترقی کی۔
ایک اور شعبہ جس میں حکومت نے نہ صرف اپنے اہداف پورے کیے بلکہ پچھلے سال کی نسبت نمایاں بہتری دکھائی، وہ مالیاتی خسارے کو قابو میں رکھنا ہے۔ وزیر خزانہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ مالیاتی خسارے کو 6.5 فیصد سے کم سطح پر رکھیں گے اور اقتصادی سروے کے مطابق ایسا ہی ہوا۔
وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اس سال اضافہ ہوا ہے جو اس سال 2.29 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی، جس میں دو ارب ڈالر کے یورو بانڈ بھی شامل ہیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ ملک میں فی کس آمدنی کی شرح 3.5 فیصد اضافے کے بعد 1386 ڈالر فی کس تک پہنچ چکی ہے۔
دفاعی بجٹ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیرخزانہ نے کہا کہ ملکی دفاع کے لیے ہر ضرورت پوری کی جائے گی۔
اسحٰق ڈار نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ان الزامات کی تردید کی کہ قومی ترقیاتی پروگرام میں صوبہ پنجاب اور اس میں بھی مرکزی پنجاب کو فوقیت دی گئی ہے۔
انھوں نے کئی ترقیاتی منصوبوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دیگر صوبوں میں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں لیکن اگر کوئی صوبہ اپنے طور پر ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہا ہے تو اسے ایسا کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔
اسحٰق ڈار نے اس سروے میں دیے گئے اعداد و شمار میں حکومت کے عمل دخل کے بارے میں کہا کہ یہ اعداد و شمار شماریات ڈویژن نے تیار کیے ہیں جس میں وہ کوئی مداخلت نہیں کرتے۔
’میں نے صرف اس بات کو یقینی بنایا کہ حکومت کے مختلف ادارے مختلف اعداد و شمار جاری نہ کیے جائیں بلکہ ایک مد کے بارے میں ایک ہی اعداد و شمار جاری کیے جائیں۔‘