|

وقتِ اشاعت :   June 3 – 2014

کراچی : بلو چ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی جانب سے بانک کریمہ بلوچ کی قیادت میں چیئرمین زاہد بلوچ کی عدم بازیابی اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے تنظیموں کی خاموشی کیخلاف آرٹس نسل تا کراچی پریس کلب احتجاجی ریلی نکالی گئی ،جس میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ ،بانک حواران بلوچ ،جئے سندھ تحریک کے وائس چیئرمین سہیل ابڑو ،جئے سندھ تحریک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے صدر میر علی سندھی کارکنان سمیت،اور خواتین،بزرگ،نوجوان، بچوں سمیت سول سوسائٹی کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی،مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھائے رکھے تھے جن پر چیئرمین زاہد بلوچ کی عدم بازیابی اور اقوامتحدہ و انسانی حقوق کے تنظیموں کی خاموشی کیخلاف نعرے درج تھے ،مظاہرین نے چیئرمین زاہد بلوچ کی عدم بازیابی کیخلاف شدید نعرے بازی کی تھی ۔مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بانک کریمہ بلوچ اور دیگر رہنماوں نے کہا کہ بی ایس او آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو دو ماہ سے زائد عرصہ ہوچکا ہے جبکہ چیئرمین کی بازیابی کیلئے مرکزی کمیٹی کے رکن لطیف جوہر گذشتہ 42دنوں سے کراچی پریس کلب کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بھیٹے ہیں لیکن اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے ادارے اپنے ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوکر عملی اقدامات اٹھانے میں ناکام ہوچکے ہیں بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی ،فوجی آپریشن ،ماروائے عدالت قتل ،اغواہ نما ء گرفتاریاں اور انسانی حقوق کے سنگین پامالیوں کے مسلسل واقعات کے باجود اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی کوخود ان کو کردار کو دنیا کے سامنے متنازہ کررہی ہے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے خود اپنے بنائے ہوئے قانون کی پاسداری نہیں کرسکتے تو دنیا کے مظلوموں کو کیا تحفظ فراہم کرسکتے ہیں ، بی ایس او آزاد جمہوری طلباء تنظیم ہے جو اپنے حقوق ک حصول کیلئے جمہوری و پرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہے لیکن ان اداروں کی نظر میں جمہوری جدوجہد کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے ایک طالب علم گذشتہ 42دنوں سے اپنے چیئرمین کی بازیابی کیلئے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر زندگی اور موت کے کشمکش میں زندگی گزار رہا ہے اس طالب علم کی زندگی اور تاریخ ساز جمہوری جدوجہد سے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کی کانوں کو جوں تک نہیں رہی ہے بی ایس او آزاد ہمیشہ سے ریاستی جبر کا شکا ر رہا ہے اس سے قبل تنظیم کے سابقہ سینئر وائس چیئرمین زاکر مجید بلوچ 9جون 2009کو ریاستی خفیہ اداروں کے اہلکار اغواہ کرکے لئے گئے جو تاحال لاپتہ ہے جبکہ سیکڑی جنرل رضاجہانگیر بلوچ جونیئر جوائنٹ سیکڑی شفیع بلوچ ،سی سی ممبر قمبر چاکر بلوچ ، سی سی ممبر کامریڈ قیوم بلوچ سمیت سینکڑوں کارکنان کو اغواہ کرکے شہید کیا گیا ہے جبکہ بی ایس او آزاد جیسے پر امن و جمہوری طلباء تنظیم پر پابندی ریاستی ظلم و جبر کی نشانی ہے جو ایک پر امن طلباء تنظیم کے جمہوری جدوجہد سے خائف ہوکر اس پر پابندی لگا کر اس کیخلاف جاری کریک سنگین کریک ڈاون کو قانونی جواز پیش کرنے کی کوشش کی جارئی ہے بی ایس او آزاد کے چیئر مین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی اور لطیف جوہر کی تادم مرگ بھوک ہڑتاک کے حوالے سے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی طرح میڈیا کی خاموشی افسوناک اور تاریخی جرم ہے آخر میں مظاہرین نے اقوام متحدہ ،انسانی حقوق کے اداروں اور کو اس جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے اپنے ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے بی ایس او آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کی بازیابی اورمنظر عام پر لانے کیلئے اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق پاکستان پر دباو ڈالئے اور زاہد بلوچ کی بازیابی ومنظر عام پر لانیاور لطیف جوہر کی زندگی کو تحفظ دینے میں اپنا عملی کردار ادا کرے ۔اگر انسانی حقوق کے ادارے اور اقوام متحدہ انسانی زندگیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکے ہیں تو دنیا کے سامنے اپنے ناکامی کا اعتراف کرکے اپنے ذمہ داریوں سے دستبردار ہوجائے ۔