وزیر اعظم پاکستان کو پیش کی گئی کراچی کے ہوائی اڈے پر حملے کی حتمی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسندوں کا منصوبہ پرانے اور نئے ہوائی اڈوں پر کھڑے تمام جہازوں کو تباہ کرنے کا تھا۔
دوسری جانب کراچی کے ہوائی اڈے کے باہر دو خاندان بیٹھے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان والے ایئر پورٹ پر ملازم تھے اور اب ان کا کچھ پتہ نہیں ہے۔
وزیر اعظم کو دی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملہ آور دو مختلف جگہوں سے ایئر پورٹ میں داخل ہوئے۔
’حملہ آوروں کا مقصد ملکی ایوی ایشن کی صنعت کو تباہ کرنا تھا۔ لیکن ایئر پورٹ سکیورٹی فورس کے اہلکاروں نے ان حملہ آوروں کی قائد اعظم جناح ٹرمینل کی جانب پیش قدمی روکی۔‘
حتمی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے ایس ایف کی جانب سے کارروائی کے بعد رینجرز اور پولیس نے آپریشن میں حصہ لیا اور حملہ آوروں کو گھیرے میں لے کر ہلاک کیا۔
دوسری جانب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سول ایوی ایشن شجاعت عظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حملہ آور کراچی ایئر پورٹ میں فوکر گیٹ اور انٹرنیشنل کارگو گیٹ سے داخل ہوئے تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہوائی اڈے کو کلییر قرار دے دیا گیا ہے اور معمول کے آپریشنز دوپہر چار بجے سے شروع کردیے جائیں گے۔
ایئرپورٹ کے باہر بیٹھیں کارگو میں کام کرنے والے سیف الرحمان کی والدہ نے نامہ نگار کو بتایا ’میری رات کو بات ہوئی تھی اور اس نے کہا کہ میں موبائل بند کرتا ہوں کیونکہ اس کی روشنی سے حملہ آور نہ آ جائیں۔ اس کے بعد سے کچھ پتہ نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ ہسپتال بھی گئی تھیں لیکن وہاں سے بھی کچپ پتہ نہیں چل سکا۔
اس سے قبل کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کراچی ہوائی اڈے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے جناح ہسپتال کے شعبۂ حادثات کی انچارج ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ 18 افراد کی ہلاکت ہوئی ہے جن میں ایئر پورٹ سکیورٹی فورس، پی آئی اے، رینجرز اور سول ایوی ایشن کے اہلکار شامل ہیں۔
جناح ہسپتال کے شعبہ حادثات کی انچارج ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ دس حملہ آوروں کی لاشیں جناح ہسپتال منتقل نہیں کی گئی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان 18 ہلاکتوں میں سے ایک لاش شاہین ایئر لائنز کے ایئر کرافٹ انجینیئر کی ہے، لیکن اندازہ ہے کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے کیونکہ بدن پر کوئی بیرونی چوٹ نہیں ہے۔
زخمیوں کے بارے میں ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا کہ 24 افراد زخمی ہیں جن میں سے دو کی حالت تشویش ناک ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جن افراد کی حالت نازک ہے ان میں ایک رینجر کا اہلکار ہے جو وینٹی لیٹر پر ہے۔
اس سے قبل ڈائریکٹر جنرل رینجرز رضوان اختر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن رات ساڑھے 11 بجے شروع ہوا اور صبح ساڑھے چار بجے ختم ہوا۔
انھوں نے بتایا کہ دس حملہ آور پانچ پانچ کی دو ٹولیوں میں ایئر پورٹ میں داخل ہوئے تھے۔
ڈی جی رینجرز نے کہا کہ ایئر پورٹ کو کلیئر قرار دے دیا گیا ہے اور ایئر پورٹ حکام دوپہر سے آپریشنز کا آغاز کر سکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ حملہ آوروں کے پاس غیر ملکی اسلحہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر شدت پسند اے کے 47 سے لیس تھے۔
ایک اور سوال پر انھوں نے کہا کہ سات حملہ آوروں کو سکیورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران ہلاک کیا ہے جبکہ تین نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔
واضح رہے کہ اتوار کو حکام کے مطابق دس حملہ آوروں نے کراچی بین الاقوامی ایئر پورٹ پر حملہ کیا۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے پانچ گھنٹے کے آپریشن کے بعد حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا۔