|

وقتِ اشاعت :   June 11 – 2014

کراچی (بیورورپورٹ) قوم پرست بلوچ رہنما نواب خیربخش مری مختصر علالت کے بعد کراچی کے نجی اسپتال میں منگل کی شب 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ، ان کو برین ہیمرج کے باعث جمعہ کو نجی سپتال کے نیورو سرجیکل انتہائی نگہداشت کے شعبہ میں داخل کرایا گیا تھا، نواب خیر بخش مری چارروز سے کومہ میں تھے ۔کومے میں ہونے کے باعث ان کو بیرون ملک منتقل نہیں کیا جا سکا تھا ۔ ان کے قریبی خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی تدفین ان کے آبائی علاقے کاہان کوہلو میں کی جائے گی تاہم تدفین کے وقت کاتعین ان کے صاحبزادے کریں گے۔ ان کی میت منتقل کرنے کے حوالے سے رات گئے انتظامات کئے گئے ۔ان کے انتقال کی خبر کے بعد ان کی رہائش گاہ ڈیفنس میں لوگوں کا تاتنا بندھ گیا ۔نواب خیر بخش مری 1928 میں پیدا ہوئے ،اس وقت ان کی عمر86 برس تھی اور وہ بلوچستان کے طاقتور ترین مری قبیلہ کے سر دار تھے، ، 1960 کی دہائی سے وہ جارحانہ طرز کی سیاست کے طور پر مشہور ہے، نواب خیر بخش مری 1950ء قبیلے کے سرادر بنے ۔دو ٹوک بات کرنا ان کا شیوہ رہا ، ان کو شیر بلوچستان بھی کہا جاتاہے ، ان کے چھ صاحبزادے ہیں جن میں سے ایک بیٹا جنگیز خان مری ان کے ہمراہ تھے جبکہ ان کے چار صاحبزادے بیرون ملک جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، جن میں حیربیار مری، گزین مری، حمزہ مری، مہران مری شامل ہیں، ان کے ایک بیٹے بالاچ خان مری کو21نومبر 2007 کو افغان بارڈ کے قریب شہید کر دیا گیا ،۔انہوں نے ہمیشہ بلوچستان کے حقوق کے لئے جدوجہد کی اسی وجہ سے ان کے کسی بھی حکومت سے تعلقات بہتر نہیں رہے ۔ وہ پیرانہ سالی کے دوران ایک سڑک حادثے میں زخمی ہوئے تھے اور ان کی ریڑھ کی ہڈی کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ سالہا سال سے زیر علاج رہے ۔ وہ کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے آر سی ڈی شاہراہ پر حادثہ کا شکار ہوگئے تھے اور ان کی گاڑی الٹ گئی تھی۔ گزشتہ کئی ماہ سے نواب مری نے لوگوں سے ملنا جلنا کم کردیا تھا اور لوگوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کی طرح ان کے خلاف کوئی کریمنل الزامات نہیں تھے۔ وہ ہمیشہ جیل میں سیاسی اور آئینی وجوہات کی بناء پر گئے۔ انہوں نے 1962, 1956اور 1973کے آئین کو تسلیم نہیں کیا۔ نواب مری، سردار عطاء اللہ مینگل اور میرغوث بخش بزنجو کے ہمراہ 14اگست 1973میں گرفتار ہوئے اور اسی دن بھٹو صاحب نے 1973کے آئین کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ یہ بلوچوں کے خلاف شدید نفرت کی نشاندہی کرتی ہے کیونکہ بلوچ اکثریت نے 1973کے آئین کے حق میں ووٹ نہیں دیا بلکہ انہوں نے 1973کے آئین کو ویٹو کیا تھا جس پر بھٹو صاحب گھبراگئے تھے اور قومی اسمبلی میں حفیظ پیرزادہ کے ذریعہ یہ اعلان کردیا کہ مشترکہ آئینی لسٹ اگلے دس سالوں میں ختم کردیا جائے گا اور تمام اختیارات صوبوں کو دیئے جائیں گے ۔یہ اعلان اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ 1973کے آئین کو مسترد کرنے کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ ون یونٹ کے خلاف تحریک میں نواب مری صف اول کے رہنما تھے اور ہر محاذ پرڈٹے رہے۔ انہوں نے اصولوں پر کبھی بھی سودا بازی نہیں کی۔ 1970کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کے بعد مغربی پاکستان سے نواب مری نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ ان کے ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ 40ہزار تھی۔ وہ انتہائی مقبول رہنما تھے انہوں نے اپنے مدمقابل کو عبرت ناک شکست دی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کوئٹہ سے بھی صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی۔ 1962 اور 1965کے انتخابات میں وہ دوبارہ قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے۔ نواب مری نیشنل عوامی پارٹی کے صوبائی صدر بھی رہے اسی دوران بھٹو نے سازش کرکے سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جس کے بعد بہت بڑے پیمانے پر بلوچستان میں انسرجنسی ہوئی جو 8سالوں پر محیط رہی۔ حیدرآباد جیل سے رہائی کے بعد وہ لندن اور پیرس چلے گئے اور چند ماہ کے قیام کے بعد واپس وطن آئے اور بعد میں افغانستان چلے گئے۔ افغانستان سے اس وقت آئے جب مجاہدین کی حکومت کابل میں قائم ہوئی اور سیکورٹی کے خدشات کے پیش نظر وہ دوستوں کی رائے کے بعد وطن واپس آئے۔ کچھ عرصہ کوئٹہ میں رہنے کے بعد وہ کراچی منتقل ہوئے اوروہاں کافی عرصے تک قیام پذیررہے۔ نواب مری کے انتقال کی خبر نے پوری بلوچ قوم کو تشویش میں مبتلا کردیا وہ پوری بلوچ قوم کے لیے جہد مسلسل ،ہمت اورحوصلے کی علامت تھے۔