|

وقتِ اشاعت :   July 6 – 2014

بیت المقدس : اسرائیلی پولیس کے ہاتھوں شدید تشدد کا نشانہ بننے والے ایک فلسطینی نژاد امریکی نوجوان کو یروشلم کی ایک عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا۔ پندرہ سال طارق ابو قدیر کو مقبوضہ مشرقی یروشلم کے علاقے شفاعت میں جمعرات کو پرتشددجھڑپوں کے دوران اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے فلسطینی نوجوان کزن کی اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت پر احتجاج کرنے میں مصروف تھا۔ طارق کے وکیل نے بتایا کہ ضمانت کی شرائط میں دس روزہ ہاﺅس اریسٹ، 2857 ڈالرز کا جرمانہ اور اس کے شفاعت داخلے پر پابندی شامل ہے۔ فلسطینی ٹی وی کی جانب سے جاری ویڈیو میں دکھایا گیا کہ تین نقاب پوش پولیس اہلکار ہتھکڑی لگے نوجوان کو بری طرح مارتے ہوئے گھسیٹ کر لیکر جارہے ہیں۔ اس وڈیو سے تو لڑکے کی شناخت نہیں ہوسکی تاہم جمعے کو ایک مقامی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ازامیر نے تصاویر جاری کی جن سے معلوم ہوا کہ یہ نوجوان طارق ابو قدیر ہی ہے جس کے چہرے پر شدید زخموں کے نشانات واضح ہیں۔ طارق کے والد نے الجزیرہ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وڈیو میں دکھایا جانے والا لڑکا ان کا بیٹا ہے اور کسی اور فلسطینی اس سے ملتی جلتی چوٹوں کے ساتھ سامنے نہیں آیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ویڈیو میں سامنے آنے والا مواد بہت تکلیف دہ ہے اور ہم اس کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں،طارق ابو قدیر اپنے خاندان کے ہمراہ فلوریڈا میں رہتا ہے اور تعطیلات پر یروشلم گیا ہوا ہے۔ ایک اسرائیلی پولیس ترجمان نے بتایا کہ ویڈیو کو ” ایڈیٹ” کیا گیا ہے ، جبکہ اس نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ طارق نے پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں حصہ لیا تھا۔ شفاعت میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ایک نوجوان محمد ابو قدیر کو اغوا کرنے کے بعد تشدد کرکے ہلاک کردیا گیا، فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکت گزشتہ ماہ تین یہودیوں کے قتل کا انتقام لگتا ہے۔

محمد ابوقدیر کا قتل


.سولہ سالہ محمد ابو قدیر
.سولہ سالہ محمد ابو قدیر
اغوا کے بعد قتل ہونے والے محمد ابو قدیر کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس 16 سالہ نوجوان کو زندہ جلایا گیا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق محمد ابو قدیر کو بدھ کو شفاعت کے علاقے سے اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد اس کی تشدد زدہ جھلسی ہوئی لاش یروشلم کے جنگل سے ملی۔ فلسطینی نیوز ایجنسی مان کے مطابق اٹارنی جنرل محمد الویوی نے کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹس میں قدیر کے پھیپھڑوں میں دھوئیں کی موجودگی کے آثار ملے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جلائے جانے کے وقت زندہ تھا۔ الویوی کے مطابق ابو قدیر کو سر پر بھی چوٹیں لگی ہوئی تھیں تاہم وہ اس کی موت کا سبب نہیں بنیں۔