|

وقتِ اشاعت :   July 26 – 2014

پشاور : غیر معروف عسکریت پسند گروپ احرار الہند نے اعلان کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سنیئر کمانڈرز اس کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں۔ رواں برس کے اوائل میں حکومت اور تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کی امن مذاکرات کی مخالفت کرنے والے گروپ احرارالہند کی جانب سے یہ دعویٰ جمعے کو سامنے آیا جس کی ٹی ٹی پی کی جانب سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ احرار الہند کے ترجمان اسد منصور کی جانب سے ڈان کے نمائندے کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ گروپ منظم اسٹرکچر کا حامل ہے اور اب اس میں بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھیوں سمیت ٹی ٹی پی کے کچھ بانی کمانڈرز بھی شامل ہوگئے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ مولانا عمر قاسمی احرارالہند کے امیر ہوں گے۔ اسد منصور نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے گروپ کو اہم کمانڈرز جیسے مالاکنڈ کے مولانا حبیب الحق، باجوڑ کے مولانا عبداللہ، مہمند میں طالبان شوریٰ کے رکن مولانا حمزہ، مولانا عامر سلام، جبکہ اورکزئی، کرم اور خیبرایجنسیوں میں ٹی ٹی پی کے سابق سربراہان، مہمند میں طالبان دارالقضاء کے سربراہ مفتی مصباح الدین سید، پنجابی طالبان کمانڈر ابو ابراہیم، مولانا صادق اور مولانا یاسین کی حمایت حاصل ہوچکی ہے۔ ترجمان نے پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا”فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ حکومتی مشینری ہماری ہٹ لسٹ میں شامل ہے”۔ یہ گروپ پہلی بار اس وقت میڈیا میں سامنے آیا جب اس نے تین مارچ کو اسلام آباد کی ایک ضلعی عدالت پر ہونے والے حملے کا دعویٰ کیا جس میں وکلاءاور ایک سیشن جج سمیت دس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ تیرہ مارچ کو اس گروپ نے پشاور اور کوئٹہ میں حملوں کی ذمہ داری قبول کی جن میں انیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ گروپ طالبان سے حکومتی امن مذاکرات کے دوران الگ ہوگیا تھا اور اس نے بات چیت کے عمل کو مسترد کردیا تھا۔ یاد رہے کہ ٹی ٹی پی نے مارچ کے شروع میں ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا مگر 48 گھنٹے کے اندر ہی احرار الہند کی جانب سے اسلام آباد کی عدالت میں حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ سامنے آیا تھا، جبکہ طالبان نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔ تین اہم شہروں میں حملوں کے بعد یہ خدشات سامنے آنے لگے تھے کہ عسکریت پسند تحریک خطرناک انداز میں تقسیم ہورہی ہے اور متعدد تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ انہیں شک ہے کہ یہ نیا دھڑا ٹی ٹی پی کےتحت ہی کام کررہا ہے مگر اس تعلق کو چھپایا گیا ہے۔ شریعت کے نفاذ تک خودکش حملے عسکریت پسند اور حکومتی ذرائع کے مطابق احرار الہند کو مارچ کے شروع میں ان طالبان جنگجوؤں نے تشکیل دیا تھا جو امن بات چیت کے مخالف تھے۔ نو فروری کو پاکستانی میڈیا کو بھیجے گئے ایک بیان میں اس گروپ نے کہا تھا کہ وہ کسی صورت امن مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گا اور پاکستانی شہروں پر حملے جاری رکھے گا، چاہے حکومت اور ٹی ٹی پی کسی امن معاہدے تک ہی کیوں نہ پہنچ جائیں۔ اسد منصور نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے”ہمارا یہ عزم ہے کہ خود کش حملے اور مسلح جدوجہد اس وقت تک پاکستان میں جاری رکھیں گے جب تک شریعت کا نفاذ نہیں ہوجاتا، چونکہ ہم پاکستانی شہروں سے تعلق رکھتے ہیں اسی لیے ہم شہروں کے اندر حملے کریں گے”۔ اسد منصور نے کہا کہ احرار الہند کی قیادت مولانا عمر قاسمی کررہے ہیں تاہم عسکریت پسند گروپس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے یہ نام کبھی سننے میں نہیں آیا۔ اس گروپ کے بارے میں تفصیلات بہت کم سامنے آئی ہیں تاہم ایک عسکریت پسند ذرائع نے بتایا ہے کہ احرار کے بیشتر اراکین کا تعلق مشرقی افغانستان سے ہے۔ شمالی وزیرستان کے ایک ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ احرار الہند کا بڑا حصہ پنجابی طالبان پر مشتمل ہے۔ اسلام آباد کی عدالت پر حملے کے متعدد عینی شاہدین نے بھی بتایا تھا کہ حملہ آور ایک دوسرے پنجابی میں بات چیت کررہے تھے۔ یہ بات ابھی واضح نہیں کہ پاکستان میں موجود لاتعداد عسکریت پسند دھڑوں میں سے احرار الہند کون کون سے دھڑوں سے منسلک ہے تاہم ایک کمانڈر نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ گروپ چار سے پانچ دھڑوں سے رابطے میں ہے۔ تجربہ کار کمانڈرز تفتیش کاروں نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ مولانا عمر قاسمی وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک 38 سالہ شخص ہیں، جو پاکستانی شہروں میں منظم جوائنٹ آپریشنز کے لیے پنجابی اور قبائلی جنگوؤں کو استعمال کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ تفتیشی عمل سے جڑے ایک عہدیدار نے بتایا”ہوسکتا ہے کہ احرار الہند طالبان سے منسلک متعدد پنجابی دھڑوں میں سے کسی ایک کا نیا نام ہو”۔ ایک اور تفتیش کار نے بتایا”پشتو بولنے والے پنجابی جنگجوؤں کو انتہائی احتیاط سے منتخب کرکے ایک ٹیم کی شکل دی جاتی ہے اور انہیں فون کال پر ہدف فراہم کیا جاتا ہے، یہ جنگجو اپنے ہدف کا پانچ روز تک جائزہ لیتے ہیں اور حملے کی ریہرسل کے بعد اٹیک کرتے ہیں”۔ انٹیلی جنس حکام کے مطابق مولانا قاسمی کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر جھنگ سے ہے جو کہ لشکرجھنگوی کا گڑھ بھی سمجھا جاتا ہے جو پاکستان میں القاعدہ کا اہم گروپ بھی مانا جاتا ہے۔ حکام نے مزید بتایا کہ ہائی اسکول کے بعد مولانا قاسمی قریبی شہر بہاولپور منتقل ہوگئے، جہاں انہوں نے ہندوستان کو ہدف بنانے والے گروپ جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے مدرسے میں داخلہ لیا، اور بعد کے عرصے میں وہ جنوبی پنجاب سے قبائلی علاقوں میں آنے جانے سے خطرناک حد تک منظم نیٹ ورک کو بنانے میں کامیاب ہوگیا، خاص طور پر مہمند ایجنسی میں جہاں پاکستانی طالبان نے رواں سال کے شروع میں 23 فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا، جس کی وجہ سے پر امن مذاکرات کے لیے وزیراعظم نواز شریف کی خواہش پر بہت زیادہ تنقید بھی کی گئی تھی۔ حکام کا یہ بھی ماننا ہے کہ مولانا قاسمی جند اللہ کے قریب ہیں، یہ گروپ گزشتہ سال پشاور میں ایک گرجا گھر پر خودکش حملے میں ملوث تھا، جس میں 78 عیسائی افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اس میں پنجابی گروپس کے بارہ سو سے زائد جنگجو شامل ہیں۔