لاہور: وزیراعظم نواز شریف کو بتایا گیا ہے کہ کچھ شرپسند عناصر پاکستان عوامی تحریک کے مارچ میں خون خرابہ کرنے کے لیے شامل ہوگئے ہیں جس کے بعد اس بات کے امکانات کم ہیں کہ حکومت جماعت کو ‘انقلاب’ مارچ کرنے کیا اجازت دے۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف کو پولیس کی جانب سے ‘ برائے نام’ مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد ‘آزادی’ مارچ کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
ایک سینئر حکومتی اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ایک انٹیلیجنس ایجنسی نے وزیراعظم کو منگل کے روز صورت حال پر بریف کیا جس کے دوران دونوں پارٹیوں کے 14 اگست کو ہونے والے مارچوں کے اثرات کے حوالے سے بتایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ شریف صاحب کو بتایا گیا کہ پی اے ٹی کی صفوں میں کچھ کرائے کے غنڈے شامل ہوگئے ہیں جو پہلے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ساتھ جھڑپوں کے بعد کارکنوں پر فائرنگ کریں گے۔
ایجنسی کے مطابق دونوں پارٹیاں ایک لاکھ سے زیادہ افراد جمع نہیں کرسکتیں۔ اس ایک لاکھ میں سے 80 ہزار پی ٹی آئی اور 10 سے 20 ہزار پی اے ٹی جمع کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ پی اے ٹی کے کچھ ‘ناپسندیدہ غیر ملکی روابط’ کا انکشاف ہوا ہے تاہم آفیشل نے ان روابط کی وضاحت نہیں کی۔
تاہم حال ہی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ تحقیقات کروائی جائیں کہ مارچوں کے پیچھے صیہونی لابی تو نہیں۔
انہوں نے کہا کہ رپورٹ کی روشنی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پی اے ٹی کو انقلاب مارچ کی اجازت نہ دی جائے۔
تاہم آفیشل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ہدایت دی ہے کہ تحریک انصاف کے مارچ کو کنٹرول کرنے کے لیے صرف ‘انتظامی’ اقدامات لیے جائیں اور آزادی مارچ کے شرکاء اگر کنٹینروں کو ہٹانے کی کوشش کریں تو پولیس ‘برائے نام’ مزاحمت کرے۔
دوسری جانب وزیراعظم نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے ثالثی کردار کے حوالے سے امید کھو بیٹھے اور ان سے ملاقات کرنے سے گریز کیا۔
منگل کو جماعت اسلامی کے وفد کو خوش آمدید کہنے کے لیے صرف وزیراعلیٰ شہباز شریف ہی موجود تھے۔
وفد نے انہیں بتایا کہ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ حکومت انہیں مارچ کرنے کی اجازت دے اور اس کے بعد حکومت مطالبات کو تسلیم کرلے تاکہ عمران خان ایک ‘فاتح’ کے طور پر واپس آسکیں۔
حکومت اس شرط پر کہ شرکاء صرف ایک دن تک اسلام آباد میں رہیں گے، آزادی مارچ کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔