اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ آئی ایس پی آر کا بیان حکومت کی منظوری سے جاری کیا گیا ہے جس کے لیے مشاورت کی گئی اور وزیر اعظم کو بیان دیکھانے کے بعد جاری کیا گیا جو کہ حکومت کے موقف کی تائید ہے۔
آئی ایس پی آر کا بیان آنے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کسی کو ضامن اور ثالث نہیں بنایا، آرمی چیف اور وزیر اعظم کے درمیان ملاقات پر غلط فہمی پیدا کی گئی، وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے فیصلے کو طرح طرح کے معنی دیئے گئے، دھرنے دینے والے فوج کو استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی فوج مکمل طور پر غیر سیاسی ہے، فوج کے کردار پر جان بوجھ کر غلط فہمی پیدا کی گئی، قومی اسمبلی میں وزیراعظم کا بیان ہے کہ کسی نے ضامن اور ثالث بننے کی بات نہیں کی۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ بیان جاری کرنے سے پہلے فوج نے حکومت سے اجازت لی، عمران خان اور طاہر القادری نے ہماری تجاویز سے انکار کیا۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ دھرنا دینے والوں سے حکومت نے پوچھا کس پر اعتبار ہے، انہوں نے کہا کہ فوج پر اعتبار ہے جس پر ہم نے فوج کو سہولت کار کا اختیار دیا، عمران خان اور طاہر القادری کو کسی ادارے پر اعتماد نہیں ہے۔
آرمی چیف کی جانب سے سیاسی رہنماوں سے ملاقاتوں پر وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ہماری کوشش تھی کہ فوج کوامتحان میں نہ ڈالیں، فوج جو سہولت دے رہی ہے اس کی حکومت نے اجازت دی، حکومت نے فوج کو ضامن بننے کیلئے نہیں کہا، فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں،آئین فوج سے ثالث کا کردار ادا کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتا، فوج اور حکومت میں کوئی اختلاف نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 10ہزار کے مجمع میں منہاج القرآن کی 8 ہزار خواتین شامل ہیں، دھرنے میں جو تقاریر ہوتی ہیں ان کی عوام کو ضرورت نہیں ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ چند ہزارلوگ اکھٹے کرکے دھرنا دینے کی روایت غلط ہے، دھرنے میں بچوں اور عورتوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، قبریں کھودنا اور کفن پہن لینا کسی مہذب معاشرے میں نہیں ہوتا، لشکر کشی کی روایت آج سے 200 سال پہلے ہوتی تھی، جس کا لشکر زیادہ ہوتا تھا وہ دارالحکومت کا گھیراؤ کرتا تھا۔