|

وقتِ اشاعت :   August 30 – 2014

کوئٹہ: بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی چےئرمین خلیل بلوچ نے سرکاری اداروں کی ظالمانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آواران ذکرخانہ میں معصوم بلوچ فرزندوں اور صحافی ارشاد مستوئی اور انکے ساتھیوں کی شہادت دراصل ریاست کی وہ پالسیاں ہیں جس کے تحت وہ اپنی گناہوں کو چھپا کر اپنی حاکمیت کو قائم کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ بلوچ قومی آزادی کے جہد کی عوامی شرکت، علمی آگاہی، خوانندہ طبقے کی شرکت اور عالمی پزیرائی سے ریاست انتہائی بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے،جس پر ادارے اپنی مذہبی شدت پسند رجحان کو بلوچ سماج میں اثر انداز کرانے کا گھناؤناخواب دیکھ رہا ہے جس کی شروعات صبا دشتیاری جیسے عظیم اُستاد کی شہادت سے ہوا ،پنجگور و گرد نواع میں اسکولوں کی بندش،کیچ و گوادر میں کتابوں پر چھاپے اور دکانوں کی بندش، کوئٹہ ، مستونگ اور قلات میں بلوچ خواتین پر تیزاب پھینکنا، آواران میں ذکر خانہ پر حملہ کرکے معصوم بلوچ بوڑھوں اور بچوں کا قتل، بلوچ قومی نسل کشی اوربلوچ قوم کو جہالت میں دھکیل کر قومی حقوق سے دستبردار کرنے کو کوششیں ہیں ، شہید ہونے والے والوں میں بزرگ واجہ بختیار بلوچ جو بی ایس او آزاد کے شہید رہنما رضا جہانگیر کے والد محترم تھے اورناکو مزار جیسے پیران سالہ اشخاص ،چھوٹے بچے اور نوجوان شہید ہوئے۔چئیرمین خلیل بلوچ نے کہا مذہبی دہشت گردی کو پروان چڑھا کر بلوچ فرزندوں کو نشانہ بنا رہی ہے تاکہ قومی آزادی کی جہد کو مذہبی دہشت گردی کے آڑ میں کمزور کر کے سیکولر روایات کے مالک بلوچ قوم میں طالبائزیشن کو مستحکم کر کے ریاست دیگر علاقوں کی طرح بلوچ کو بھی اس آگ میں دھکیل سکے۔حالیہ کچھ عرصے حکومت اور فورسز نے بلوچ جہد کو کاؤنٹر کر نے کے لیے ایک خاص ایجنڈئے کے تحت مذہبی شدت پسندی کوسرکاری اداروں کے دہشت گردوں کے ذریعے مضبوط کر نے کی جس ناکام کوشش کا آغاز کیا ہے وہ پوری دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چائیے۔آجآئی پوری دنیا کو جس آگ میں دکھیل دیا ہے وہ اس میں تیزی کا خواہاں ہے تاکہ یہ ریاست دُنیا سے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کیلئے پیسے بٹور کر اپنی زرو مال و سامراجیت کی سیاست کو برقرار رکھ سکے،حالیہ دنوں میں دشت میں ملا عمر نامی مذہبی دہشت گرد اور اسکے ہمراہ حنیف نامی شخص کی موت پر طالبان کی جانب سے اسے اپنا شہید کہنا اور فورسز کا انکی پشت پناہی کرنا اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ ریاست بلوچ قوم کی جہد آزادی سے خائف ہو کر اب اپنا آخری حربہ مذہب کو نام نہاد پارلیمنٹیرین ،منشیات فروشوں و بدنام سماجی کرداروں کے ذریعے آڑے میں لے کر طالبانائزیشن کی سوچ سے اپنی قبضہ کو قائم رکھنا چاہتی ہے۔مگر قوم کی آگاہی انکے ہتکھنڈوں کو کبھی بھی کامیاب ہونے نہیں دے گی۔پارٹی کارکن ریاست کے ان حربوں کا ادراک رکھتے ہوئے پوری قوم میں آگاہی مہم کو تیز کرتے ہوئے ریاست کو بھرپور جواب دیں ۔ بلوچ کی آزادی اور نیشنلزم کی جہد ہی ہماری اولین ترجیح ہے جس کے لیے آئے روز فرزند اپنی لہو بہا رہے ہیں مرکزی چےئرمین خلیل بلوچ نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی قوتوں کو آنکھیں کھول کر فوری ریاستی ادارے کی ان بدنام حکمت عملیوں کا ادراک کرتے ہوئے بلوچ قوم سمیت پوری دنیا کو ان سے چھٹکارے کے لیے اقدام کرنے چاہیں۔خلیل بلوچ نے کہا کہ صحافی ارشاد مستوئی کی شہادت قلم و صحافت پر قدفن لگانے کے برابر ہے مگر سچائی کے لے جان دینے والے کبھی بھی بھکاؤ نہیں ہوتے بی این ایم پوری صحافی برادری سے یہی امید رکھتی ہے کہ وہ ارشاد مستوئی جیسے علم و عمل سے سچی لگن رکھنے والے صحافی ،لکھاری سے ہمت و حوصلہ سیکھیں گے اور سامراج کی بربادی اور ناکامی اسی لگن میں پوشیدہ ہے۔