اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ نے جمعرات اور جمعہ کو انتہائی مصروف انداز میں گزارا۔ پہلے تو فوج کو ‘ثالثی’ کے لیے مدعو کیا گیا جبکہ اس بعد ہونے والے تنقید کا بھی سامنا بھی حکومت کو ہی کرنا پڑا۔
حکومتی افسران اور مسلم لیگ نواز کے اندرونی ذرائع کے مطابق کہ یہ خیال وزیر داخلہ اور وزیراعظم کو آیا جبکہ دیگر چند ہی لوگ ایسے تھے جو اس پیشرفت کی خبر رکھتے تھے۔
درحقیقت اس سے قبل گزشتہ ہفتے وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے درمیان ملاقاتوں کے دوران صرف دھرنا دینے والوں کے مطالبات پر بات چیت ہوئی اور آرمی چیف نے کبھی اس حوالے سے اپنے کردار کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔
تاہم ان ملاقاتوں میں جو کچھ ہوا اس کا علم ن لیگ حکومت کی کچن کابینہ کے زیادہ تر اراکین تک کو نہ تھا۔
تاہم کسی حدتک وزیر داخلہ اس پیشرفت کا حصہ تھے جبکہ انہوں نے اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وزیراعظم اور فوجی قیادت کے درمیان پل کا کردار ادا کیا تھا۔
ایک ن لیگ رہنما کے مطابق اس کردار کو نبھانے کی ہی وجہ سے چوہدری نثار نے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ فوجی قیادت مظاہرین سے رابطہ کرنا چاہتی ہے۔
تاہم ایک حکومتی افسر نے کہا کہ اس سے قبل خان صاحب نے وزیراعظم کو فوجی قیادت کو ملوث کرنے پر قائل کیا تھا۔
خان صاحب نے وزیراعظم کو کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری کسی سیاسی رہنما پر بھروسہ نہیں کریں گے اور انہیں صرف فوج ہی کی بات پر یقین آئے گا۔
دوسری جانب انہوں نے فوجی قیادت سے رابطہ کرکے کہا کہ اگر وہ اس معاملے میں ملوث نہیں ہوئے تو سیاسی کشیدگی کا پرامن حل ممکن نہیں ہوسکے گا۔ اس کے بعد جمعرات کی شام لاہور میں وزیراعظم کو یہ آرمی چیف کے حوالے سے پیغام پہنچایا گیا۔ انہوں نے اتفاق کیا کہ آرمی چیف کو ڈاکٹر قادری اور عمران خان سے ملاقات کرنی چاہیئے۔
بس جیسے ہی یہ خبر منظر عام پر آئی اور دونوں مظاہرہ کرنے والے سیاستدان جنرل راحیل سے ملنے روانہ ہوئے، تنقید کے دروازے کھل گئے۔
اس تنقید کا رخ ان کی طرف تھا جو آرمی کے معاملے میں مداخلت پر خوش تھے تاہم حکومت پر بھی فوج کو ملوث کرنے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اس تنقید کا جواب دینے صرف وزیر داخلہ اس لیے آئے کیوں کہ دیگر اراکین خود ہی حیرت کا شکار تھے۔
ن لیگ کے ایک رہنما وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب سے تنقید ن لیگ کے اندر ہی سے کی گئی پھر پارلیمنٹ میں اتحادی اور اپوزیشن بھی تنقید میں شامل ہوگئے۔
پہلے یہ خبر آئی کہ کچھ سینئر وزراء اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کریں گے جبکہ بعد میں حزب اختلاف اور اتحادی تنقید کا حصہ بن جائیں گے۔
ایک پریشان وزیراعظم نے پھر چوہدری نثار سے رابطہ کیا۔
چوہدری نثار نے شریف صاحب کو یقین دلایا کہ وہ تنقید کا جواب پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے دوران دیں گے۔
تاہم وزیر داخلہ اور اور شاید وزیراعظم بھی تنقید کے مرکز کو درست انداز میں سمجھنے میں ناکام رہے کیوں کہ چوہدری نثار کے قومی اسمبلی میں خطاب میں کچھ سوالات کا تو جواب دیا گیا تاہم کئی دیگر نئے سوالات نے جنم لے لیا۔
اسی وجہ سے اپوزیشن رہنما خورشید نے اپنا خطاب جذباتی انداز میں کیا جس پر وزیراعظم بھی ایک، دو کمنٹ کرنے پر مجبور ہوگئے۔
اس خطاب میں شاہ صاحب نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے بات کی اور حکومت اور آئی ایس پی آر سے مسئلے پر وضاحت طلب کی۔
تاہم دونوں وزیراعظم اور وزیر داخلہ واضح طور پر وضاحت کرنے میں ناکام رہے کہ آئینی حدود میں رہنے ہوئے حکومت نے آرمی چیف کو مداخلت کی درخواست کی۔
اس بات کی وضاحت بعد میں آئی ایس پی آر نے کی جس کا ایک اعلامیے میں کہنا تھا کہ حکومت نے آرمی چیف کو کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔
ن لیگ کے رہنما کے مطابق اس بات سے بالاتر کہ یہ کیسے اور کیوں ہوا، اس افراتفری کے باعث حکومت نے بحران ختم کرنے کا ایک سنہری موقع کھو دیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے اندر کچھ حلقے چاہتے تھے کہ فوجی قیادت کو مسئلے سے نمٹنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیئے اور اسی وجہ سے درخواست کی گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس افراتفری اور ابہام نے مسئلے کو بہت متنازعہ بنادیا ہے۔