|

وقتِ اشاعت :   November 18 – 2014

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلو چستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ گڈ گورننس بہتر معاشی نظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگ غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کرکے بہتر معاش کی تلاش میں دیار غیر جارہے ہیں ، 70 کی دہائی کے بعد بیرون ملک جانے کا رجحان بڑھ گیا ہے ، بلو چستان میں غیر قانونی انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے حکومت کوشاں ہے تاہم رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہونے کا ناطے کچھ مشکلات ہے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سرینا ہوٹل میں ایک سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ‘سمینار سے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چےئرمین عبدالخالق ہزارہ‘صو بائی وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال اور ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بھی خطاب کیا ۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کا سرحد اور ساحل سینکڑوں میل پر واقع ہے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے انسانی اسمنگلنگ کی روک تھام کے لئے تمام وسائل بروئے کار لارہی ہے۔ بلوچستان میں 70 کی دہائی میں لوگوں کا بیرون ملک جانے کا رجحان بڑھا میرے خود 2 بھائی دبئی جانے کے خواہش مند تھے ۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی ابتر معاشی صورتحال کے باعث لوگ باہر کی دنیا کی جانب جارہے ہیں ۔ سیکورٹی اور معاش دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اگر ہم عوام کو بہتر معاشی نظام اور سیکورٹی فراہم کریں گے تو یہ رجحان کم ہوسکتاہے ۔ جب تک معاشی اور سیکورٹی صورتحال بہتر نہیں ہوگی کوئی قانون یا ادارہ اس صورتحال کو موثر انداز میں کنٹرول نہیں کرسکتا ۔ انہوں نے کہاکہ غیر قانونی انسانی سمگلنگ کو روکنے کیلئے غربت کا خاتمہ کرنا ہوگا عوام کے مسائل کے حل کیلئے گڈ گورننس لازمی ہے سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے قانون سازی پر توجہ دینا ہوگی گڈ گورننس کے بغیر بلوچستان کے 750کلو میٹر ساحل انسانی سمگلنگ کو روکنا مشکل ہے کوئٹہ میں بھی امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ بیڈ گورننس ہے انہوں نے کہاکہ صو بائی حکومت صوبے میں کرپشن اور انسانی اسمگلنگ کی خاتمے کیلئے بھرپور کوشش کررہی ہے بعض اوقات سیکورٹی فورسز کی سستی اور رقبے کی لحاظ سے بڑاصوبہ ہونے کے ناطے کچھ مشکلات درپیش ہیں تاہم ان مشکلات کو ختم کرنے کیلئے بھرپور کارروائی جاری ہے۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایچ ڈی پی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ نے کہاکہ انسانی اسمگلنگ کو روکنے سے پہلے انسانی جان کے لینے کے واقعات کو روکنا ہوگا ۔ اس وقت ہمارے 2ہزار کے قریب لوگ مارے جاچکے ہیں تقریباً2ہزار سے زیادہ لوگ سمندر کی نظر ہوگئے اس سے آپ اندازہ لگائے کہ کتنے بچے یتیم کتنی عورتیں بیوہ اور کتنے لوگ معذور ہوگئے ہونگے ہمارے پی ایچ ڈی آج آسٹریلیا باغات میں مزدوری کررہے ہیں دکھ کی بات ہے اس ملک کیلئے اس صوبے کیلئے ہم سب کیلئے آج ہمارے 18گریڈ کے اافسران بھی وہاں جارہے ہیں علمدار روڈ کے دھماکے میں تین بھائی مارے گئے صبح جب ایک ماں اپنے بیتے کی قبر پر گئی تو روتے ہوئے اس پر دل کا دورہ پڑ ا اور وہ مرگئی آپ بات کررہے ہیں دہشتگردی کی ۔کیا انسانی سمگلنگ کرائم ہے یا انسانوں کی جان لینا کرائم ہے ۔ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پولیس نے تھپڑ مار کر کہا ں کہ آپ اس طرف کیوں آئے ہیں انہوں نے کہاکہ ماں اپنے زیور بیچ کر اپنے جوانوں دے رہی ہیں اور کہتی ہے کہ آپ چلے جاؤ مجھے اور اپنے گھروالوں کو چھوڑ دیں آپ صرف اپنی جان بچھائیں ملک میں سوشل ویلیوز کچھ اور ہوتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں کچھ اور ہے یہاں پر کرپٹ آفیسر قابل آفیسر سے زیادہ اہمیت رکھتاہے۔سمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر ایف آئی نے کہا کہ گزشتہ 5 سال کے دوران انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں کافی کمی آئی ہے تاہم اس وقت بھی رجحان اور شعور بڑھانے کی ضرورت ہے ہجرت اور انسانی اسمگلنگ دو الگ الگ باتیں ہیں ایف آئی اے کم نفری اور محدود وسائل کے باوجود انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے بھر پور کام کررہی ہے جبکہ دیگر سیکورٹی ادارے کی تعاون بھی ہمیں حاصل ہے۔