|

وقتِ اشاعت :   December 6 – 2014

کوئٹہ : وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر مذاکراتی ٹیم کے رکن اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں ہماری اکثریت ہونے کے باوجود ہم نے وزارت اعلیٰ قوم پرستوں کو دی مری معاہدہ ایک حقیقت ہے تاہم اس وقت اس کا یہاں تذکرہ نہیں کیا جاسکتا بہت سی چیزیں بند کمروں میں ہوتی ہے وقت آنے پر اس کے بارے میں کہا جائیگا بلوچستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر پارلیمانی لیڈر اور سینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اللہ خان زہری اور دیگر مسلم لیگی وزراء سے ملاقات کی ہیں انہوں نے اپنے تحفظات گلے شکوؤں سے ہمیں آگاہ کیا ہے اب ہم دوسرے فریق کی بات سنیں گے اور رپورٹ وزیراعظم کوپیش کی جائیگی انہوں نے یہ بات ہفتے کی رات کو سرینا ہوٹل میں مسلم لیگ ن بلوچستان کے صوبائی صدر ثناء اللہ زہری اور ان کے وفد سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہاکہ ہم بلوچستان اسمبلی میں واضح اکثریت ہونے کے باوجود ہم نے اپنی وزارت اعلیٰ کی قربانی دی تھی اب ہماری پارٹی کو کچھ شکایت ہے دوسرے فریق کی بات بھی ہم سنیں گے اور اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہوگا اور اس کی رپورٹ وزیراعظم نواز شریف کو دی جائیگی جب ان سے پوچھا گیا کہ مری معاہدے کا کوئی وجود برقرار ہے تو انہوں نے کہاکہ بند کمرے کی باتیں باہر نہیں لائی جاسکتی جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مری معاہدے کے تحت ڈھائی سال حکومت ایک پارٹی کریگی اور ڈھائی سال حکومت مسلم لیگ کریگی تو انہوں نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا انہوں نے کہاکہ کنٹینر پر کھڑے ہوکر جو اب نعرے لگا رہے ہیں اس وقت پورے پاکستان میں 272حلقے ہیں 18حلقے کھولے گئے تھے جن کے بارے میں تحقیقات کی جارہی ہے انہوں نے کہاکہ کنٹینر پر کھڑے ہوکر بات کرنیوالوں کو حقائق کے بارے میں بتانا چاہیے وفاقی وزیر ریلوے سے پوچھا گیا کہ بلوچستان صوبائی حکومت میں مسلم لیگ ن رہے گی یا نہیں تو انہوں نے کہاکہ سوال کرنا آپ کا حق ہے اس سوال کی ضرورت نہیں ؟ اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی سینئر نائب صدر وسینیٹر سردار یعقوب خان ناصر بلوچستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر سینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اللہ خان زہری پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی سینئر نائب صدر اور صوبائی وزیر نواب چنگیز خان مری صوبائی وزیر خوراک میر اظہار حسین کھوسہ ،بلوچستان مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی اور سابقہ وزیر خزانہ میر عاصم کر دگیلو اور دیگر ارکان صوبائی اسمبلی پارٹی کے مرکزی اور صوبائی عہدیدار بھی موجود تھے ۔