دنیا کے سب سے زیادہ قدامت پسند معاشروں میں سے ایک کے حکمران سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے اگرچہ ایک روایتی اسلامی خیالات کے مالک گھرانے میں پرورش پائی لیکن بطور بادشاہ وہ ایک نسبتاً اصلاح پسند حکمران اور مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے داعی کے طور پر سامنے آئے۔
وہ اگست 1924 میں ریاض میں پیدا ہوئے تھے تاہم ان کی اصل تاریخِ پیدائش کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں۔
شاہ عبداللہ موجودہ سعودی مملکت کے خالق شاہ عبدالعزیز السعود کے 37 بیٹوں میں سے 13ویں نمبر پر تھے۔
بدو نسل سے تعلق رکھنے والی ان کی والدہ فہدہ شاہ عبدالعزیز کی 16 بیویوں میں سے آٹھویں بیوی تھیں اور عبداللہ بن عبدالعزیز نے روایت کے مطاق اپنے بچپن کا بڑا حصہ صحرا میں رہتے ہوئے گزارا۔
ایک نوجوان شہزادے کے طور پر شاہ عبداللہ نے روایتی خیالات کی روشنی میں پرورش پائی اور انھیں دین، ادب اور سائنس کی تعلیم دربار سے وابستہ اسلامی اساتذہ نے دی۔
1962 میں شاہ عبداللہ کو 38 برس کی عمر میں اس وقت کے بادشاہ اور ان کے سوتیلے بھائی شاہ فیصل نے انھیں سعودی نیشنل گارڈ کا کماندار مقرر کر دیا۔
اس دستے کی کلیدی ذمہ داریوں میں سے ایک سعودی عرب کے شاہی خاندان کا تحفظ ہے اور روایتی طور پر اس کا سربراہ آلِ سعود میں سے ہی ہوتا ہے۔
شہزادہ عبداللہ کی زیرِ قیادت جہاں اس دستے کی نفری میں اضافہ ہوا وہیں اسے جدید ترین ہتھیاروں سے بھی لیس کیا گیا۔
مارچ 1975 میں شاہ فیصل کے قتل کے بعد ان کے جانشین شاہ خالد نے بھی عبداللہ بن عبدالعزیز کو ان کے عہدے پر برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ دوسرا نائب وزیراعظم بھی بنا دیا۔
1970 کی دہائی میں ہی شاہ عبداللہ مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی پالیسی کے بڑے ناقد اور عرب ممالک کی یکجہتی کے حامی کے طور پر سامنے آئے۔
ان کا موقف تھا کہ عرب ممالک کا اتحاد ہی تیل کی دولت سے مالامال ان ممالک کو مغرب کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت دے سکتا ہے۔
1982 میں شاہ خالد کی وفات کے بعد ملک کے نئے بادشاہ فہد نے اپنے اس سوتیلے بھائی کو ولی عہد اور ملک کا نائب وزیراعظم مقرر کر دیا۔
اطلاعات کے مطابق شاہ فہد کے سات سگے بھائی شہزادہ عبداللہ کی ولی عہدی سے خوش نہیں تھے لیکن عبداللہ بن عبدالعزیز نے آلِ سعود کی اس مخالفت کا زور آہستہ آہستہ توڑ دیا اور اپنی جگہ مضبوط کی۔
1991 میں کویت پر عراقی حملے کے بعد شاہ عبداللہ سعودی عرب میں امریکی فوج کی تعیناتی کے حق میں نہیں تھے اور ان کا خیال تھا کہ صدام حسین سے بات چیت کے ذریعے یہ معاملہ بہتر انداز میں حل ہو سکتا ہے لیکن شاہ فہد نے ان کے مشورے کو اہمیت نہ دی۔
ذاتی طور پر فلسطینی رہنما یاسر عرفات سے اچھے تعلقات نہ ہونے کے باوجود انھوں نے فلسطینیوں کی حمایت تو کی لیکن ساتھ ساتھ وہ فلسطینی رہنماؤں پر تنقید بھی کرتے رہے۔
1994 میں غزہ کی پٹی میں اسرائیلیوں سے جھڑپوں کے بعد انھوں نے فلسطینی رہنماؤں سے باز رہنے اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔
مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کے بارے میں اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم دہشت گردی کی ان کارروائیوں کو رد کرتے ہیں جن کا مقصد خلیج کے خطے کے استحکام کو نقصان پہنچانا ہے۔‘
نومبر 1995 میں شاہ فہد کے علیل ہونے کے بعد عبداللہ عملی طور پر ملک کے حکمران بن گئے لیکن انتقالِ اقتدار کو جنوری 1996 تک مخفی رکھا گیا۔
ان یقین دہانیوں کے باوجود کہ بطور سعودی بادشاہ شاہ عبداللہ امریکہ سے قریبی تعلقات برقرار رکھیں گے، وہ نئے پرعزم تھے کہ اتحادیوں کے معاملے پر ملک کی خارجہ پالیسی کی سمت خود متعین کریں گے۔
1997 میں انھوں نے ایک لبنانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’سعودی عرب امریکہ کا دوست رہے گا لیکن ہم ان کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح نہیں دے سکتے۔ ہمارے مفادات ہر جگہ موجود مسلمانوں اور عربوں سے وابستہ ہیں۔‘
ستمبر 2001 میں امریکہ میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد جہاں انھوں نے بطور شاہ ملک کے قومی دن کی تقریبات کو مختصر کرنے کا حکم دیا وہیں امریکی ذرائع ابلاغ میں حملوں کے بعد سعودی عرب کی منفی شبیہ پیش کیے جانے پر کڑی تنقید بھی کرتے نظر آئے۔
2002 میں عرب لیگ نے عرب اسرائیل تنازع کے خاتمے کے لیے شاہ عبداللہ کی پیش کردہ تجاویز کو ہی اپنایا تھا جن میں اسرائیلی افواج کی جانب سے 1967 سے قبل کی پوزیشن پر واپسی اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے بدلے اسرائیل سے امن معاہدے کی بات کی گئی تھی۔
شاہ عبداللہ بسا اوقات مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسی پر تنقید کرتے بھی نظر آئے۔
جب امریکی صدر بش نے عرب اسرائیل تنازع کے حل کے لیے ان کے اس منصوبے کی حمایت نہ کی تو شاہ عبداللہ کا تبصرہ یہ تھا کہ ان کے خیال میں امریکی صدر کو اس بارے میں صحیح تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
مغربی دنیا سے رشتے بہتر بنانے اور سعودی عرب کے داخلی مسائل پر توجہ دینے کے معالمے میں توازن سے کام لیا۔
سعودی سرزمین پر شدت پسندوں کے حملوں کے بعد سنہ 2003 میں شاہ عبداللہ نے ایک بڑے سکیورٹی کریک ڈاؤن کا حکم دیا۔
یہ حملے ان عناصر کی جانب سے کیے گئے تھے جو سعودی عرب کی مغرب نواز پالیسیوں کے مخالف تھے لیکن شاہ عبداللہ نے ملک سے اس شدت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم ظاہر کیا۔
سنہ 2005 میں شاہ فہد کے انتقال کے بعد وہ باقاعدہ طور پر ملک کے بادشاہ بن گئے۔
اپنے دورِ بادشاہت میں انھیں عرب ممالک میں شروع ہونے والی انقلابی تحریکوں کے اثرات سعودی عرب تک پہنچنے کا خطرہ درپیش رہا اور وہ ملک میں ایرانی اثرونفوذ کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف نظر آئے۔
شام کی خانہ جنگی میں بھی مشرقِ وسطیٰ کے لیے دو روایتی حریف فریقین کی حمایت میں کمربستہ رہے اور جہاں ایران شامی صدر بشار الاسد کی کھل کر حمایت کرتا نظر آیا وہیں شامی باغیوں کو سعودی حکومت کی آشیرباد حاصل رہی۔
امورِ خارجہ میں روایتی سعودی پالیسی برقرار رکھنے والے شاہ عبداللہ داخلی طور پر ایک قدرے اصلاح پسند حکمران کے طور پر سامنے آئے۔
انھوں نے جہاں ذرائع ابلاغ کو شاہی خاندان پر تنقید کی کچھ حد تک اجازت دی وہیں اس بات کے اشارے بھی دیے کہ ملک میں خواتین کی زیادہ بڑی تعداد کو کام کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
ایک انٹرویو کے دوران سعودی عرب میں خواتین سے روا رکھے جانے والے سلوک پر سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ وہ خواتین کے حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔
2011 میں شاہ عبداللہ نے سعودی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بلدیہ کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جسے کئی دہائیوں میں سعودی خواتین کے حقوق کے سلسلے میں آنے والی سب سے اہم تبدیلی قرار دیا جاتا ہے۔
’قدامت پسند گھرانے کا نسبتاً اصلاح پسند حکمران‘
وقتِ اشاعت : January 23 – 2015