ڈھاکا: بنگلہ دیشی حکام نے ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کی سربراہ اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کو حکومت مخالف ٹرانسپورٹ ہڑتال ختم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ان کے گھر کی بجلی کاٹ دی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش کے مقامی ٹیلیویژن پر بجلی فراہم کرنے والے سرکاری ادارے کے ایک ٹیکنیشن کو سیڑھی پر چڑھ کر خالدہ ضیاء کے گھر کے باہر بجلی کی لائن کاٹتے ہوئے دکھایا گیا۔
واضح رہے کہ خالدہ ضیاء نے اپنے گھر میں ہی دفتر کھول رکھا ہے اور وہ رواں ماہ کے اوائل میں شروع کیے گئے اپنے احتجاج کے وقت سے یہاں نظربند ہیں۔
مذکورہ ٹیکنیشن نے رپورٹرز کو بتایا کہ انھیں پولیس کی جانب سے بجلی کی لائن کاٹنے کی اجازت حاصل ہے۔
جبکہ مقامی نجی چینل 24 کا کہنا ہے کہ خالدہ ضیاء کے گھر کا انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ کنیکشن بھی منقطع کیا گیا ہے۔
تاہم اس حوالے سے پولیس اور بجلی فراہم کرنے والے ادارے کا موقف معلوم نہیں ہو سکا۔
خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ترجمان شمس الدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ 69 سالہ اپوزیشن لیڈر اس ‘گھناؤنی’ حرکت پر ‘حیران اور پریشان’ ہیں۔
واضح رہے کہ خالدہ ضیاء کے گھر کی بجلی ایک حکومتی وزیر کی جانب سے ٹرانسپورٹ کی ہڑتال ختم نہ کرنے پر انھیں بھوکا مارنے کی مبینہ دھمکی کے محض چند گھنٹوں بعد ہی کاٹ دی گئی۔
مقامی اخبارکی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر شپنگ شاہجہاں خان نے جمعے کی رات خالدہ ضیاء کو دھمکی دی تھی کہ اگر یہ ہڑتال ختم نہ کی گئی تو ان کی پارٹی کی جانب سے فراہم کیا جانے والا کھانا ان تک نہیں پہنچنے دیا جائے گا اور وہ فاقوں سے مرنے پر مجبور ہوجائیں گی۔
یاد رہے کہ خالدہ ضیاء ڈھاکا کے ضلع گلشن میں واقع اپنے گھر میں بی این پی اور اس کی حامی جماعتوں کی جانب سے ملک میں متنازع انتخابات کا ایک سال مکمل ہو نے پر احتجاج اور ریلیوں کے اعلان کے بعد کافی ہفتوں سے نظر بند ہیں۔
خالدہ ضیا کی جماعت نے گزشتہ سال پانچ جنوری کو ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور اب انہوں نے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں اور ایک نگراں انتظامیہ کی زیر نگرانی انتخابات کرائیں۔
وزیر اعظم نے ناصرف اس مطالبے کو مسترد کردیا بلکہ اہم اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا کے اداروں پر بھی پابندیاں لگا دیں جس کے باعث حکومت مخالف احتجاج شروع ہوئے۔
رواں برس پانچ جنوری کو انتخابات کی پہلی سالگرہ کے موقع پر پرتشدد واقعات مزید سنگین صورتحال اختیار کر گئے۔
دوسری جانب امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے اس صورتحال پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے تمام بنگلہ دیشی جماعتوں پر مذاکرات کرنے پر زور دیا ہے۔