اسلام آباد(آزادی نیوز)گوادر چیمبر آف کامرس اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے مشترکہ تعاون سے گوادر پورٹ پراسلام آباد سرینہ ہوٹل میں ایک بین الاقوامی اہمیت کے حامل سیمینار کا اہتمام کیا گیاجس میں اسلام آباد میں موجودسفرا اور ڈپلومیٹ کے علاوہ سینیٹر،ایم این اے،ایم پی اے پنجاب سندھ ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے معروف صنعتکارتاجر اور کاروباری شخصیت نے بھرپور شرکت کی،پہلے سیشن کی صدارت سابق سینیٹراور سیکریٹری خارجہ اکرم ذکی نے کی جس میں مرکزی وزیر احسن اقبال اور بلوچستان سے قومی اسمبلی کے امیدوارسردار کمال خان بنگلزئی نے خصوصی طور پر شرکت کی اور سیمینار سے خطاب کیا۔مہمان خصوصی مرکزی وزیر جناب عبدالقادر بلوچ،احسن اقبال اور قومی اسمبلی کے رکن اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے نمائندے سردار کمال خان بنگلزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس سیمینار کے ذریعے نہ صرف گوادر پورٹ کی افادیت اور اہمیت ثابت ہوئی ہے بلکہ پورے بلوچستان کے سائل اور وسائل پرسیر حاصل بحث ہوئی ہے لیکن ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بلوچستان عمومی طور پرحالات اس قدر قابل رشک نہیں جس قدر ہم سمجھتے ہیں سب سے پہلے ہمیں وہاں کے غیر موزون حالات کے بارے میں توجہ دینی چاہئے،موجودہ حکومت بلوچستان کی ترقی کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہی ہے اور گوادر پورٹ سے متعلق وزیراعظم جناب نواز شریف ایک واضح ویژن رکھتے ہیں ہمیں ا س حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ سابقہ حکمرانوں نے بلوچستان کے عوام کو احساس محرومی میں مبتلا کئے رکھااس لئے اس تناظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان کے عوام کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں لیکن اس کا طریقہ کاریہ نہیں جو کچھ شدت پسندوں نے اختیار کیا ہے ہم اس طریقے کاراور قتل و غارت گری کے خلاف ہیں ان کے اس طرز عمل کے خلاف ہونے کے باوجود ان کے بہت سارے مطالبات جائز ہیں جن کی ہم بھی حمایت کرتے ہیں۔انہیں تمام بنیادی سہولتیں ملنی چاہیں ،امن تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقعے پیدا کرینگے آئیے مل کرقانون اور آئینی طریقہ کار کے مطابق اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کریں۔گوادر پورٹ اور بلوچستان کے دوسرے وسائل نہ صرف بلوچستان کو خودکفیل بنائیں گے بلکہ پورے پاکستان کی معیشیت کیلئے ریڑھی کی ہڈی کا کام دینگے۔ دوسرے سیشن کی صدارت مہمان خصوصی جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ وفاقی مرکزی وزیر نے کی۔گوادر ڈیوپلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سجاد بلوچ،اکرم زکی، ڈاکٹر زاہد فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے صدر محمد ادریس اور لاہور چیمبر کے سابق صدراور پنجاب کے معروف صنعتکار انجم نثار گوادر چیمبر اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر عبدالرحیم ظفر،سابق نائب صدرفیڈریشن آف پاکستان انڈسٹری کے نوید بلوچ اور دیگر تھنک ٹھینک اور ماہرین نے سیمینار کی اہمیت اور افادیت پر بھرپور انداز میں روشنی ڈالی اور سرمایہ کاری کیلئے گوادر سمیت پورے بلوچستان کو بہتر معاشی مواقعے کا سرزمین قرا دیاملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کوبلوچستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے کی کوشش کی نوید جان بلوچ نے اپنے خطاب میں سرمایہ کاروں پر زور دیاکہ وہ کسی بھی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ مقامی لوگ ان کے شریک کار ہونگے کیونکہ مقامی آبادی کی شرکت کے بغیرکوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتاہم کسی بھی غیر مقامی غیر ملکی سرمایہ کاریا کاروباری شخص کے خلاف نہیں بلکہ ان کے آنے اور ہماری سرزمین پرسرمایہ کاری کوہم خوش آمدید کہتے ہیں بشرطیکہ وہ مقامی لوگوں کواپنے کاروبار میں شریک کریں انہوں نے کہا کہ امن و امان کی ذمہ داری ریاست اور حکومت کی ہے لیکن اگر مقامی لوگوں کی شراکت کاری سے کاروبار کیا جائے تو بدامنی کے اثرات خود بخود ختم ہو جائیں گے اور جب لوگوں کی معاشی حالت تبدیل ہو گی تو معاشرے میں بھی مثبت تبدیلی کے اثرات پیدا ہونگے۔عبدالرحیم ظفر نے اپنی تقریر میں کہا کہ بلوچستان وسائل سے بھرپور سرزمین ہے جس میں نہ صرف سرزمین بلکہ زیرزمین قیمتی وسائل سے مالا مال ہے ان وسائل کو ایک مکمل حقیقی سروے کی ضرورت ہے تاکہ فزی بلٹی، معیار اور صحیح تعدا د کا پتہ چل سکے زیر زمین بہت سے معدنیات ہیں جن کا اس حقیقی سروے سے پتہ چل سکتا ہے بلوچستان میں صندق،ریکوڈک ،بہترین معیار کے ماربل،بہترین اعلیٰ معیار کی مچھلیاں،اور سب سے بڑھ کر گوادر پورٹ یہ چند ایسے وسائل ہیں جو پوری دنیا کے معیار پرپورا اترتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قدر اعلیٰ معیار کے مالک بلوچستان کے لوگوں کے حالات فقیروں سے بھی بدتر ہیںیہ ریاستی ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے ان وسائل کا استعمال اس سرزمین کے باشندوں کو پہنچائے گوادر پورٹ نہ صرف بلوچستان بلکے پورے پاکستان کیلئے قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے یہ پورے سینٹرل ایشیا بشمول افغانستان جو لینڈ لاک ممالک ہیں سمندر تک پہنچنے کیلئے گوادر ایک اہم ذریعہ ہے گوادر کی ایسٹریٹیجک اہمیت یہ ہے کہ بلوچستان ساحل کی مغربی حصے کے آخری سرے میں واقع ہے اور خلیج عمان کے مخالف آخری سرے کو ملاتا ہے جو بڑے آئل ٹینکرزآبی جہازوں کا ایک اہم گزر گا ہے اور اس خلیج سے جاپان اور دیگر مغربی ممالک پر پہنچتی ہے مغربی چین اور سینٹرل ایشیائی ممالک کیلئے کارگوگوادر تک پہنچتے ہیں پھر زمینی راستے سے آسانی کے ساتھ ان ممالک تک پہنچ سکتے ہیں اس طرح ان ممالک کے کارگو گوادر پورٹ پہنچنے کے بعد دنیا کے کسی بھی ملک تک پہنچنے میں آسانی ہو گی پاکستان کو گوادر پورٹ سے کئی ملین ڈالر کی آمدنی پورٹ اور کارگو اینڈلنگ کی مد میں مل سکتی ہے اس طرح ایمپورٹ کارگواور دیگر اشیا کی ایکسپورٹ کے کرائے کے مد میں بھی اربوں ڈالروں کی آمدنی ہو سکتی ہے گوادر پورٹ تجارتی بنیادوں پر قابل استعمال ہو تو پاکستان کو اربوں ڈالر کی آمدنی کے ساتھ ساتھ کم ازکم بیس لاکھ لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی حاصل ہونگے۔ اس اہم نکتے کو سمجھنے کیلئے بیس لاکھ لوگوں کو اس وقت روزگار ملے گاجب ہم اس قابل ہونگے کہ گوادر پورٹ کو تجارتی بنیادوں پر آپریشنل کرسکیں، اس ڈیپ سی پورٹ کوسڑک کے ذریعے ملک کے دیگر صوبوں سے ملانے کی فوری ضرورت ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جونہی جلد بادیرہم اس میگا پروجیکٹ کو چلانے میں کامیاب ہو سکیں گے بڑے پیمانے پر یہاں سے معاشی سرگرمیوں کا آغاز ہو گا،اور بلوچستان میں جو موجود بے چینی ہے وہ خود بخود مثبت تبدیلی کی طرف گامزن ہوگا،رحیم ظفر نے اس سیمینار کے تواسط سے حکومت پاکستان ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تجاویز پیش کیں۔