|

وقتِ اشاعت :   February 17 – 2015

کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی و اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ مری معاہدہ کا سامنے آنا ان کی اس بات کی دلیل ہے کہ وزیراعلیٰ کا فیصلہ کوئٹہ کی بجائے مری کے یخ ہواؤں میں کیاگیا تھا معاہدے سے انکاری لوگ قوم کو بتادے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ معاہدہ عوام سے پوشیدہ رکھاگیا تھا ان کی نظر میں معاہدے کی طرح پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ سے 14ارب روپے کے ریلیز کی وضاحتی بیان بھی معاہدے کی طرح حقائق کو چھپا نے کے سواء کچھ نہیں۔یہ بات انہوں نے گزشتہ روز بات چیت کرتے ہوئے کہی‘مولانا عبدالواسع نے کہاکہ وہ روز اؤل سے یہی کہہ رہے تھے کہ صوبے کی حکومت معاہدوں کے نتیجے میں ماروز عمل میں آئی ہے لیکن قوم پرست معاہدے کی نفی کرتے رہے بلآخر گزشتہ دنوں حکومت کے اتحادی جماعت مسلم لیگ(ن)نے وہ بات جو قوم پرست ڈر کے مارے عوام کو نہ بتاسکے معاہدے کی کاپی میڈیا کو جاری کرکے قوم اور بلوچستان کے عوام کے سامنے رکھ دی معاہدے میں تحریری الفاظ کے علاوہ ان کی شنید میں آیا ہے کہ صوبے کے عوام کی حقوق حکومت کے بدلے گروی رکھوا دئیے گئے ہے جس میں گوادر تا کاشغر شاہراہ کی منتقلی ریکوڈک سیندک اور دیگر اہم منصوبوں پر قوم پرستوں نے حامی بھرلی ہیں جس کو پبلک ڈاکومنٹس کا حصہ نہیں بنایاگیا ہے انہوں نے کہاکہ وہ آج ان قوم پرستوں سے پوچھتے ہیں کہ جنہوں نے ہمیشہ اپنے سیاست کا محوریہاں کے عوام کو کہا ہے کہاگر اقتدار کا حصول ان کا مقصد نہیں تھا اور کوئی دیگر مجبوری نہیں تھی تو عوام کے حقوق کیوں سلب کروارہے ہیں انہوں نے کہاکہ جس طرح گزشتہ دنوں ایک مبہم انداز میں پی اینڈ ڈی کی جانب سے وضاحت کی گئی اس میں مزید سوالات کو جنم دیدیا ہے یہ کس طرح کے میرٹ کی حکومت ہے کہ پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ کا ترجمان جو معلوم بھی نہ ہوسکا کہ کون ہے اور کس دلیل کی روشنی میں یہ بات کررہا ہے کہ پی اینڈ ڈی کی جانب سے کوئی اضافی رقم جاری نہیں کی گئی مخصوص چند اسکیمات کے رقم کو بڑھایاگیا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس علاقوں میں منصوبوں کی رقم بڑھانے کی بات کی گئی ہے ان علاقوں کی نشاندہی کی جاتی کہ کہی وہ یہ وہ دو اضلاع تو نہیں جس کے بارے میں بلوچستان کے عوام پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان کا آدھا بجٹ وہاں خرچ ہورہا ہے اس طرح کے بیانات اپنے کئے ہوئے اقدامات کو پردہ دینے کے سواء کچھ نہیں ہے انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ اس بات کی وضاحت نہ کرسکے کہ تحقیقات کرنے کا حکم انہوں نے کس کو دے رکھا ہے اور انکوائری کہاں تک پہنچ چکی ہے جس کا بلوچستان کے عوام بے چینی سے انتظار کررہا ہے۔