اسلام آباد : حکومت ہفتہ کو جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو سینیٹ انتخابات کے لیے اوپن پولنگ کے حوالے سے مجوزہ 22 ویں آئینی ترمیم کی حمایت کے لیے رضامند کرنے میں ناکام رہی۔
مولانا فضل الرحمان نے منسٹر انکلیو میں اپنی سرکاری رہائشگاہ کے باہر دو وفاقی وزراءسے ملاقات کے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ” حکمران اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود ہمیں مجوزہ ترمیم پر تحفظات ہیں”۔
یہ دونوں وزراءاس معاملے پر ایک ڈیل کی توقع کے ساتھ مولانا سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔
بعد ازاں جے یو آئی ف کے سربراہ نے پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔
دونوں رہنماﺅں نے اس معاملے پر مشترکہ موقف اپنایا، جبکہ سیاسی صورتحال اور دونوں جماعتوں کے درمیان تعاون کے امکانات خصوصاً خیبرپختونخوا میں، جہاں یہ دونوں اپوزیشن میں ہیں، کا جائزہ لیا۔
اس سے قبل مولانا نے وفاقی وزراءپرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق کی موجودگی میں صحافیوں کے سامنے کہا تھا ” اوپن پولنگ کے خیال کی حمایت کرکے میں اپنے اراکین کو یہ پیغام نہیں دینا چاہتا کہ ان کی وفاداری شبہات کا شکار ہیں، دیگر جماعتوں کو اس طرح کا پیغام بھیجنے سے گریز کرنا چاہئے”۔
وزیر اطلاعات پرویز رشید نے میڈیا سے طویل گفتگو سے گریز کرتے ہوئے بس یہ کہہ کر وہاں سے لے گئے کہ جے یو آئی ایف کے سربراہ کے تحفظات وزیراعظم نواز شریف تک پہنچا دیئے جائیں گے اور توقع ہے کہ انہیں حل کرلیا جائے گا”۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی مولانا فضل الرحمان سے اس معاملے پر رابطہ کیا اور ان کی جماعت دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی رابطے میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے فوجی آمریت نے جمہوری اور اخلاقی اقدار کو تباہ کردیا ہے اور فرقہ واریت، سیاست میں رشوت کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ اس گند کو جمہوریت پسند جماعتوں کے تعاون سے ختم کرے گی۔
جے یو آئی نے اس موقع کو خیبرپختونخوا میں اپنے مرکزی حریف پی ٹی آئی کو الزام کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا اور کہا کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون اس لیے کررہی ہے کیونکہ اراکین کے مستعفی ہونے کے بعد وہ اسمبلی میں واپسی کے لیے جواز تلاش کررہی ہے۔
مولانا کے خیال میں انتخابی اصلاحات کمیٹی کو سینیٹ انتخابات کا مسئلہ بھی حل کرنا چاہئے جو کہ پی ٹی آئی کا دھرنا ختم ہونے کے بعد سے فعال نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر پی ٹی آئی اراکین اسمبلیوں میں واپس آجاتے ہیں تو انہیں ” اجنبی” تصور کیا جانا چاہئے۔
دوسری جانب ہفتہ کو مسلم لیگ ق کے سنیئر رہنماءایس ایم ظفر نے پارٹی صدر چوہدری شجاعت حسین کے نام خط لکھتے ہوئے 22 ویں ترمیم کی حمایت پر احتجاج کیا۔
اپنے خط میں ایس ایم ظفر نے پارٹی قیادت کو اتنا بڑا فیصلہ جماعت کی ایگزیکٹو پارٹی میں بحث کے بغیر کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔