لاہور: پنجاب اسمبلی میں کم عمری میں شادی کی ممانعت سے متعلق ترمیمی بل 2015 کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے۔
مذکورہ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد بچوں کی کم عمری میں شادی کرنے والوں کے ورثاء کو چھ ماہ کی قید کے ساتھ ساتھ 50 ہزار جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔
جمعے کو پنجاب اسمبلی میں منظور کیے گئے اس بل کا مقصد جنوبی پنجاب میں کم عمری کی شادیوں کو روکنا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بچوں کی شادی کی ممانعت کے ایکٹ برائے 1929 کے تحت کم عمری میں شادی کروانے والوں کو ایک ہزار جرمانہ اورایک ماہ قید کی سزا ہوتی تھی جبکہ نکاح خواں کو کچھ نہیں کہا جاتا تھا، تاہم اس بل کے بعد اب نکاح خواں کو بھی سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس سے قبل سندھ اسمبلی میں بھی بچوں کی شادیوں کی ممانعت کا ایکٹ برائے 2013 منظور کیا گیا تھا، جس کے بعد یہ اسمبلی ملک میں اس حوالے سے قدم اٹھانے والی پہلی صوبائی اسمبلی بن گئی تھی۔
پاکستان جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جہاں کم عمری میں بچوں کی شادیاں کروانا عام ہے ۔
اس حوالے سے گزشتہ برس اقوا م متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی کُل آبادی میں سے تقریباً نصف کی شادیاں 18 سال سے کم عمر میں ہی کردی جاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی 15 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی شادی کر دی جاتی ہے جو دنیا بھر میں بچوں کی شادی (چائلڈ میرج) کی سب سے بڑی شرح ہے۔
کم عمری میں شادی کیخلاف ترمیمی بل منظور
وقتِ اشاعت : March 6 – 2015