کوئٹہ: وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے کہا ہے کہ گیس کمپنیوں پر واضح کر دیا ہے کہ اگر بلوچستان کو اس کا حصہ نہیں دیا گیا تو بلوچستان میں مزید گیس ایکسپولریشن کی اجازت نہیں دینگے ۔ 18ویں ترمیم کے بعد او جی ڈی سی ایل ،پی پی ایل سمیت تمام کمپنیوں میں بلوچستان کو پچاس فیصد حصہ ملنا چاہیے۔ وفاقی محکموں کے متعلق امور کے سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی کی حمایت کرینگے ۔یہ بات انہوں نے جمعہ کو بلوچستان اسمبلی میں سوئی سدرن گیس کا ہیڈ آفس کراچی سے کوئٹہ منتقل کیئے جانے سے متعلق مسلم لیگ کی رکن ثمینہ خان کی قرارداد پر بحث سمٹیتے ہوئے کیا ۔اس سے پہلے ثمینہ خان نے قرداد پیش کر تے ہوئے کہا کہ صوبہ میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے اور یہ قدرتی گیس کو ملک کے طول و عرض میں پہنچائی گئی ۔ لیکن کمپنی کے انتظامی سر براہ اور دفاتر کراچی میں قائم کیئے گئے ۔ جس کی وجہ سے صوبے کے عوام کو گیس سے متعلق بے شمار شکایات کے ازالے کے لئے کراچی جانا پڑتا ہے ۔جو کہ ان کی قیمتی وقت کا ضائع و مالی مشکلات کا سبب بنتے ہیں۔ لہٰذا صوبائی حکومت وفاق سے رجوع کرے کہ سوئی صدر ن گیس کمپنی کے ہیڈ آفس کو کوئٹہ منتقل کیا جائے ۔ تاکہ صوبے کے عوام میں پائی جانے والی احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہو سکے ۔ایوان نے قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دیدی۔ قرارداد پر اظہار خیال کر تے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے کہا کہ اس سے پہلے کہ میں قرارداد پر اظہار خیال کروں ان تمام سیاسی جماعتوں اور سینیٹروں کو مبارکباد پیش کر تا ہوں جو کل ایک پر امن ماحول میں انتخابات کے بعد منتخب ہوئے ۔ موجودہ حکومت نے بلدیاتی کے بعد پر امن اور خوشگوار ماحول میں سینیٹ کا انتخاب کرایا۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کی حکومت پر امن اور جمہوری جدوجہد کر یقین رکھتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پہلی بار صوبے میں بلدیاتی اور سینیٹ کے انتخابات میں سرکاری مشینری یا اثر ورسوخ کا استعمال نہیں کیا گیا ۔ ہم نے پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کے سینیٹروں کی کامیابی کے لئے کام ضرور کیا لیکن کسی پر کوئی غیر جمہوری دباؤ نہیں ڈالا۔حکومت انتخابات کے دوران ہر لحاظ سے غیر جانبدار رہی ۔قرارداد پر اظہار خیال کر تے ہوئے انہوں نے کہا کہ او جی ڈی سی ایل پی پی پی ایل سوئی سدرن گیس کمپنی کو 18ویں ترمیم کے بعد بلوچستان کو پچاس فیصد شیئر دینا چاہئے اور اگر وہ اس بات کو نہیں مانتے تو اس کا مطلب ہے کہ آئین پاکستان کو نہیں مانتا ۔گیس کمپنیوں کو یہ روش چھوڑ نا پڑے گا۔17مارچ کو سی ایل آئی کا اجلاس ہو رہا ہے ۔ اس میں ہم نے گیس کمپنیوں کے حکام کے ساتھ اسی مسئلے کو اٹھانا ہے ۔او جی ڈی سی ایل ، پی پی ایل اور دیگر کمپنیوں نے بلوچستان کے ساتھ جو روایہ اختیار کیا ہے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر کے ساتھ نہیں کیا تھا۔میں نے سوئی میں گیس کمپنی حکام کو واضح کیا تھا کہ بلوچستان میں جو آگ لگی ہے اس کے ذمہ دار تم لوگ ہوں۔ انہی کمپنیوں نے غیر ضروری تنازعات میں نواب اکبر بگٹی الجھایا ۔کمپنی حکام کا کہنا تھا کہ یہاں چوری ہو رہی ہے ۔ جس پر میں نے کہا کہ چوری تو 1957ء سے کر رہی ہے ۔ آج تک کوئی حساب کتاب نہیں لیا گیا ۔ ہم نے کمپنی حکام پر یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر بلوچستان کو آئین کے مطابق حصہ نہ دیا گیا تو صوبے میں مزید ایکسپولریشن کرنے کی اجازت نہیں دینگے ۔ 18ویں ترمیم کے بعد گیس و پیٹرولیم کمپنیوں میں بلوچستان کا پچاس فیصد شیئر بنتا ہے ۔مگر اس وقت سوئی سدرن گیس کی یہ حالت ہے کہ وہاں سے ہمیں شیئر نہیں مل رہا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے شیئر کا مسئلہ سی سی آئی میں اٹھائیں گے ۔ ہمارا موقف ہے کہ ہمارے حصے کے شیئر ہمیں ملنے چاہئیے۔انہوں نے کہا کہ او جی ڈی سی ایل پی پی ایل سوئی سدرن گیس کمپنی کا بلوچستان کے ساتھ وہی روایہ ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا بر صغیر کا ساتھ تھا ۔ہم نے گیس کمپنیوں پر واضح کیا ہے کہ اگر بلوچستان کو اس کا پورا حصہ نہ دیا گیا تو ہم صوبے میں مزید گیس ایکسپولریشن کی اجازت بھی نہیں دینگے۔صوبائی وزیر اطلاعات عبد الرحیم زیارتوال نے کہا کہ جب کہ حکومت برسراقتدار آئی تو وفاقی حکومت نے بلوچستان اسمبلی کی 2002سے2008ء کے درمیان منظور ہونے والی قراردادوں کی تفصیل منگوائی ہم نے این ایف سی ایوارڈ اور گیس رائلٹی جیسی قراردادوں پر عمل درآمد کرایا تا ہم کچھ قراردادوں پر کام کرانا باقی ہے ۔ ہم فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے ۔ حکومتی اور اپوزیشن ارکان جن چیزوں پر متفق ہے۔ان پر اپوزیشن حکومت سے تعاون کرے ۔انہوں نے کہا کہ زرغون غر سے گیس دریافت ہوئی ہے۔وہاں سے جو گیس دریافت ہوئی اس کے حوالے سے کمپنی حکام نے غلط بیانی سے کام لیا۔ فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے اکائی کے طور پر ہر چیز کا حساب ہوگا۔ ایکنیک سمیت تمام آئینی اداروں میں اپنی بات اٹھائیں گے ۔ہم اسلام آباد یا کراچی سمیت کسی کے ملازم نہیں ۔گیس ہماراثاثہ ہے۔ ہم جب بھی حق کی بات کر تے رہیں تو کہاگیا کہ پسماندہ ہیں۔ ہم پسماندہ نہیں بلکہ ہمیں پسماندہ رکھا گیا ہے ۔اب جبکہ نیا این ایف سی ایوارڈ آنے والا ہے تو تمام ارکان اسمبلی اور ماہرین سے کہتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں اپنی تجاویز دیں ہماری پاس صوبے کے وسائل اور آمدنی کا مکمل حساب ہونا چاہیئے۔انہوں نے تمام نو منتخب سینیٹروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس صوبے کی اپنی ایک تاریخ ہے موجودہ حکومت کا یہ اعزاز ہے کہ اس نے ملک میں سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کر وائے سینیٹ کے انتخابات کا پورامن انعقاد کیا ۔قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے انجینئر زمرک خان نصر اللہ زیرے ،ڈاکٹر شمع اسحاق ،یاسمین لہڑی، آغا لیاقت ،عبید اللہ بابت اور ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ مرکز ہمارے صوبے کے قراردادوں کو اہمیت نہیں دے رہے 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو کافی حد تک اختیارات منتقل ہوئے گیس کمپنیاں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں۔ بلوچستان کا جنرل منیجر بھی کراچی میں بیٹھا ہوا ہے اور صوبے سے ان کا کوئی تعلق نہیں یہاں جو نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کوئٹہ شہر کے لئے پائپ بچھانے کے لئے بجٹ میں ایک روپے بھی نہیں رکھا ۔ شدید سردی میں لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ لیکن کمپنی ٹس سے مس نہیں ہو رہی ۔ یہاں کے منتخب نمائندے گیس کمپنی حکام سے ملتے ہیں تو وہ وقت نہیں دیتے فرعون سے زیادہ مغرور لوگ بیٹھے ہیں۔ بلوچستان وسائل سے بھر پور لیکن مسائل میں گرا ہوا ہے ۔1952ء میں جس علاقے سے گیس نکلی ہے وہاں کے لوگ اب بھی لکڑی جلا کر گزاراکرتے ہے۔صوبوں کو وسائل پر اختیار دیا جائے تاکہ ہر صوبہ اپنے وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھا سکے ۔گیس بلوچستان سے نکلتی ہے مستفید دوسرے صوبے ہو رہے ہیں۔اراکین اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ نہ صرف ہیڈ آفس کو کوئٹہ منتقل کیا جائے بلکہ بڑے لیول کے افسران کے پوسٹوں کو بھی کوئٹہ ٹرانسفر کیا جائے اور اس صوبے کے مقامی لوگوں کو تعینات کیا جائے ۔ اس موقع پر اسپیکر نے قرارداد ایوان میں پیش کی جس کی ایوان کے متفقہ طور پر منظوری دیدی۔