لوگ، چاہے وہ کسی بھی ملک، کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں تھانے اور کورٹ کچہری کی طرح اسپتال سے بھی دور رہنا چاہتے ہیں مگر چین میں ایک شخص نے تین سال گزر جانے کے باوجود اسپتال کی ’ جان چھوڑنے‘ سے انکار کردیا، حالاں کہ اسے کوئی مرض لاحق نہیں تھا۔
حد تو یہ ہے کہ اس پر عدالتی احکامات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ چناں چہ پولیس کو مداخلت کرنی پڑی۔ پولیس کی آمد پر اس نے خود کو زنجیروں کے ساتھ بیڈ سے باندھ لیا جس پر سپاہیوں کو اسے ڈنڈا ڈولی کرتے ہوئے اسپتال سے باہر لے جانا پڑا!
اس قصے کا آغاز اگست 2011ء میں ہوا تھا۔ پندرہ اگست کو بیجنگ کے جنگ می اسپتال میں ایک زخمی کو لایا گیا۔ چن نامی شخص سڑک پار کرتے ہوئے موٹر سائیکل سے ٹکرا گیا تھا۔ اسے درمیانی نوعیت کی چوٹیں آئی تھیں۔ چن کو اسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ چند دنوں میں اس کے زخم مندمل ہونے شروع ہوگئے اور تین ہفتوں میں وہ بھلا چنگا ہوچکا تھا۔ مگر اس نے ایک ہفتہ مزید اسپتال میں گزارا۔ ایک ماہ کے بعد اسے اسپتال سے گھر بھیج دیا گیا۔ ڈیڑھ ماہ کے بعد وہ پھر اسپتال میں تھا۔ اس بار چن نے ٹانگوں میں تکلیف ہونے کی شکایت کی۔
اس کی شریانوں میں خون جمنے لگا تھا۔ چناں چہ چن کو پھر داخل کرلیا گیا۔تین ماہ کے علاج کے بعد ڈاکٹروں نے اسے گھر جانے کی اجازت دے دی مگر چن نے کہا کہ وہ اسپتال چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا کیوں کہ اس کی ٹانگیں اب بھی درد کررہی ہیں، اور وہ انھیں سیدھا نہیں کرسکتا۔ چن کا کہنا تھا کہ اس کی دیکھ بھال کرنا اسپتال کی ذمے داری ہے۔ درد کی شکایت پر ڈاکٹروں نے چن کا پھر سے علاج شروع کردیا۔ اس دوران چن کے بیٹے کی شادی کا دن بھی آگیا، مگر ٹانگوں میں ’ درد‘ کی وجہ سے وہ شادی میں شریک نہ ہوسکا۔
جلد ہی چن اسپتال میں علاج کا خرچا برداشت کرنے کے قابل نہ رہا۔ بلوں کی عدم ادائیگی پر اسپتال کی انتظامیہ نے جولائی 2012ء میں اس کا علاج کرنا بند کردیا۔ اس سے قبل چن کے تمام ٹیسٹ لیے گئے تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کی شریانوں میں رکاوٹ نہیں رہی تھی اور وہ مکمل طور پر صحت مند تھا۔ ڈاکٹروں کے کئی بار کہنے کے باوجود بھی چن علاج جاری رکھنے پر مُصر رہا۔ مگر جب اس کی جیب خالی ہوگئی تو علاج بند کردیا گیا۔اس کے باوجود چن نے اسپتال چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا۔
اسپتال کی انتظامیہ تمام تر کوششوں کے باوجود اسے اسپتال سے نکالنے میں کام یاب نہ ہوسکی۔ بالآخر چن سے نجات حاصل کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ دو برس کی سماعت کے بعد چند روز قبل عدالت نے مدعی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے چن کو اسپتال چھوڑنے کا حکم دیا، مگر وہ حکم کی تعمیل کرنے سے انکاری ہوگیا۔ چن کی جانب سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کے بعد اسپتال کی انتظامیہ نے پولیس سے مدد لی۔ پولیس کی آمد پر چن نے اپنے ہاتھوں کو زنجیروں اور قفل کی مدد سے بیڈ سے باندھ لیا، جس پر سپاہی اسے اٹھاکر اسپتال سے باہر لے گئے، اور سڑک پر پھینک دیا۔
’’گھر نہیں جاؤں گا!‘‘
وقتِ اشاعت : March 9 – 2015