کراچی بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے زہراہتمام آواران، گیشکور،مشکے،تربت،دشت سمیت بلوچستان بھر میں آپریشن، بلوچ فرزندوں کو ماروائے عدالت گرفتار کرنے اور بلوچ فرزندوں کی ہلاکتوں کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔نوجوان ،بچے ، خواتین سمیت عوام کی بڑی تعداد نے مظاہرے میں شرکت کی مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھائے رکھے تھے جس میں چستان بھر میں آپریشن، بلوچ فرزندوں کو ماروائے عدالت گرفتار کرنے اور بلوچ فرزندوں کی ہلاکتوں کے خلاف نعرے درج تھے ۔شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بی ایچ آر او کے رہنماوں نے کہا کہ 6مارچ 2015کو فورسز کے اہلکاروں نے آوران کے علاقے گیشکور سُنڈم میںآپریشن کرکے 30سے زائد گھروں کو نذر آتش کردیا جبکہ گیشکو ر زیک میں شہداد بازار، کچی بازار، میر امیتان بازارکو مکمل تباہ کردیا اور زیک کے نواح میں لعل بخش، محمد علی ، شیر محمد ،شاکر ولد قادر بخش کے گھروں کو بھی نذر آتش کردیا اور گیشکور بازار میں 19دکانوں کو لوٹنے کے بعد نذرآتش کردیا گیا جبکہ 11فروری 2015کو گیشکور آپریشن کے دوران اغواہ ہونے اسکول ٹیچر خدا بخش بلوچ کی تشدد زدہ لاش 4مارچ کو خضدار سے برآمد ہوئی مقتول کے ساتھ چالیس افراد کو اغواہ کیا گیا تھا جس سے چار افراد ڈاکٹر ثناء اللہ ، وشی بلوچ ، فراز بلوچ اور ماسٹر خدابخش کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئی جبکہ 36افراد تاحال لاپتہ ہے بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی طرح گیشکور میں بھی ریاستی فورسز کی ظلم انتاء کو پہنچ چکی ہے گذشتہ دومہینے سے تسلسل کیساتھ فوجی آپریشن جاری ہے جس میں سینکڑوں لوگوں کو ماروائے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا جبکہ لاپتہ افراد کی تشدد زدہ لاشیں آئے روز بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہورہی ہے فوجی کاروائیوں سے تنگ آکر علاقے کے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے بڑی تعداد میں عوام نے نقل مکانی کرکے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کمپسری کی زندگزارنے پر مجبور ہیں جبکہ بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں گذشتہ روز سے ریاستی فورسز کی آپریشن جاری ہے ہنوز 25سے زائد افراد کو ماروائے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا دوران آپریشن ریاستی فورسز کے اہلکاروں نے خواتین و بچوں کو جبری تشدد کا نشانہ بنا کر گھروں سے قیمتی اشیاء کو لوٹ کر اپنے ساتھ لئے گئے جبکہ تربت کے علاقے ہوشاپ میں ریاستی فورسز کے اہلکاروں نے امتحانی مراکز میں کاروئیوں کرکے 30سے زائد طلباء کو اغواہ کرکے اپنے ساتھ لئے گئے علاوہ ازیں گوادر کے علاقے ریک مونڈی میں فورسز نے آپریشن کرکے چارد و چار دیواری کا پامال کرتے ہوئے گھروں میں تھوڑ پھوڑ کرکے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بناکر بزرگ فیض محمد کو ماروائے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا جبکہ گذشتہ روز تربت کے علاقے دشت میں ریاستی فورسز نے آپریشن کرکے کئی گھروں مائنز کے ذریعے تباہ کردیا آپریشن کے دوران خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بناکر گھروں میں لوٹ مار کرکے مال ومویشیوں کو بھی اپنے ساتھ لئے گئے علاوہ ازیں حب کے مختلف علاقے ساکران ، رمضان گوٹھ، میرا جادا گوٹھ ، اور جمعہ گوٹھ میں ریاستی فورسز نے آپریشن کرکے کئی نوجوانوں کو ماروائے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا آپریشن کے دوران خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جس سے کئی خواتین و بچے زخمی ہوگئے ۔ رہنماوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فورسز کی کارائیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہے فورسز کی کاروائیوں سے عام عوام کی زندگی کرب میں گزررہی ہے بلوچستان بھر میں ریاستی فورسز اور خفیہ اداروں نے اپنی کاروائیوں سے خوف کا ماحول بنا رکھا ہے آپریشن سے متاثرہ علاقے کے لوگ تیزی سے نقل مکانی کرکے دوسرے علاقوں میں بے یار و مددگار زندگی گزارنے پر مجبور ہے ریاستی فورسز نے آپریشن کے دائرہ کار کو وسیع کر کے بلوچستان بھر میں پھیلادیا جبکہ عام آبادیوں کو تباہ کرکے بلوچستان کو چھاونی میں تبدیل کیا جارہا ہے۔رہنماوں نے آخر میں کہا کہ ہم اس مظاہرے کے توسط سے اقوام متحدہ ، ایمنسٹی انٹر نیشنل ، ہیومن رائٹس واچ سمیت تمام انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لیکر بلوچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔