|

وقتِ اشاعت :   March 10 – 2015

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے صوبے میں امن وامان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت عوامی امنگوں کے مطابق صوبے میں امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہے ، ہمسایہ ممالک میں مداخل کے باعث اس خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں ،ناراض بلوچوں نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو چائے پر بھی بلانے کی زحمت نہیں کی مذاکرات یا ان کو راضی کرنا تو دور کی بات ہے، قبائلی رنجشوں کو ختم کرنے کے لئے حکومت بلوچ اور پشتون قبائلی عمائدین پر مشتمل بااختیار کمیٹی تشکیل دے ۔ ان خیالات کا اظہار بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے اجلاس میں صوبے میں امن وامان پر بحث کرتے ہوئے کیا ۔ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ امن وامان کی صورتحال پر ایوان میں پہلے بھی بارہاں بحث ہوچکی ہے اور آج بھی ہم اس صورتحال پر بحث کررہے ہیں وزیرداخلہ بتائے کیا انہیں وزیر اعلیٰ نے تمام اختیارات دے دیئے ہیں تاکہ ہم ان سے امن وامان کی صورتحال پر بات کریں اور انہیں صورتحال سے آگاہ کرسکیں کہ کہاں کہاں امن وامان کی صورتحال خراب ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس سے پہلے ایک ریکوزیشن اجلاس پر ہم نے امن وامان پر بحث کی تھی اور آج جب یہاں دوبارہ بحث ہورہی ہے تو وزیراعلیٰ ایوان سے چلے گئے ہیں اس طرح بحث سے کیا نتیجہ نکلے گا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت امن وامان کے قیام میں کتنی سنجیدہ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت کے قیام میں آنے کے فوری بعد وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ حکومت صوبے کے بلوچ علاقوں میں جہاں امن وامان خراب ہے وہاں امن قائم کریں گے اور جو لوگ ناراض ہیں انہیں منا کر واپس لائیں گے جبکہ یہاں پریس کانفرنسوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمیں موقع دیا جائے تو ناراض بلوچ رہنماؤں کو راضی کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ حکومت ایسے اقدامات کرے کہ جن سے ایسا امن قائم ہو جو صوبے میں 15 سال پہلے تھا جہاں ہم اور عوام سب خود کو محفوظ تصور کرتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو ہم نے انہیں خوش آمدید کہنے کے ساتھ امن وامان کے حوالے سے اپنے تحفظات اور خدشات کا بھی اظہار کردیا تھا کہ صوبے میں جہاں امن خراب ہے وہاں شاید حالات بہتر ہویا نہ ہو لیکن جہاں حالات بہتر ہیں وہاں بھی خراب ہوجائیں گے اور آج وہ ہماری بات درست ہوگئی کہ صوبے کے جن علاقوں میں امن وامان کی حالت بہتر تھی وہاں بھی خراب ہوگئی ہے جن علاقوں میں رات کو سفر انتہائی محفوظ تھا وہاں اب دن میں بھی سفر ممکن نہیں ہے اگر وزیراعلیٰ اپنے علاقے کا دورہ نہ کرسکے اور ان کے اپنے ہی ضلع سے انتظامی آفیسران و اہلکاروں کو اغواء کرلیا جائے اور پھر بھی حکومت کہے کہ امن ہے تو ہم کہتے ہیں کہ حقائق کو حکومت تسلیم کرے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیرستان میں آپریشن کے بعد وہاں سے بلوچستان آنے والوں کا راستہ نہیں روکا گیا اور اب ان کو بہانہ بنا کر صوبے کے پشتون اضلاع میں بھی آپریشن کیا جارہا ہے ۔ناراض بلوچوں نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو چائے پر بلانے کی بھی زحمت نہیں کی مذاکرات یا ان کو راضی کرنا تو دور کی بات ہے ۔ ژوب کے عوام امن وامان میں خلل ڈالنے اور سیکورٹی فورسز کے درمیان دہری مصیبت کے شکار ہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان نے کہاکہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال پر اس ایوان میں بارہاں بحث ہوچکی ہے یہاں تک کہ اضلاع اور تحصیل کی سطح پر بھی بحث کرچکے ہیں اب بھی صورتحال تشویشناک ہیں ، صوبے کے بلوچ اور پشتون اضلاع میں امن وامان کی صورتحال کچھ الگ الگ ہے کوئٹہ چمن اور ژوب شاہراہ پر سفر ناممکن ہو کر رہ گیا ہے لوگوں کو قتل اور اغواء کیا جارہا ہے ، ڈکیتی کی وارداتیں ہورہی ہیں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں جتنے لوگ اغواء ہوئے وہ رقم ادا کرنے کے بعد بازیاب ہوتے ہیں حکومت اس جانب توجہ دے میرے حلقے قلعہ عبداللہ میں قبائلی تنازعات میں لوگ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں اس سلسلے کو روکنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے تجویز دی کہ قبائلی معتبرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو قبائلی تنازعات روکنے کے لئے مختلف قبائل سے رابطے کریں ، حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ جس سے عوام کو مطمئن کیا جاسکے ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ولیم برکت نے کہاکہ حکومت نے امن وامان کے قیام کے لئے اب تک قابل ستائش اقدامات کئے ہیں تاہم اقلیتی برادری کے حوالے سے کچھ مسائل ہیں پہلے ڈاکٹر منوج کمار کو اغواء کیا گیا 2 ماہ تک ان کا خاندان اذیت کا شکار رہا وہ کسی نے کسی طرح بازیاب ہوئے ان کے بعد دالبندین سے گنیش سنگھ کو اغواء کیا گیا تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قبائلی رہنماؤں نے سر توڑ کوششوں کے بعد انہیں بازیاب کرایا ۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں جناح روڈ پر 1935 کے زلزلے کی ایک یادگار ہے وہاں پر ایک ہفتے سے ٹریفک پولیس نے گاڑیاں فٹ پاتھ کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جس سے جہاں ٹریفک کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے جبکہ گاڑیاں کھڑی کرنے سے وہاں کوئی امن وامان کا مسئلہ پیدا اور اس تاریخی یادرگار کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس کا فوری نوٹس لیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی برادری کے تحفظ کے لئے اگرچہ حکومت موثر اقدامات کررہی ہیں مگر اب بھی کچھ لوگوں کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جارہا ہے حکومت اس جانب توجہ دے اور امن وامان بحال رکھنے کے لئے محتاط رہے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ آج ہم امن وامان کے مسئلے پر بحث کررہے ہیں ہم اور حکومت اس کتنے میں سنجیدہ ہیں اور ارکان اسمبلی اس مسئلے کو کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں اس کا اندازہ اس وقت ایوان میں ارکان کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی ملک کی سیاسی ، معاشی اور تعلیمی ترقی کا انحصار وہاں کے امن وامان پر ہوتا ہے اور جہاں امن وامان ختم ہوجائے وہاں سب ختم ہوجاتا ہے انگریز حکمرانوں نے ہم پر دو سو سال حکومت کی یہ خطہ یا پورے برصغیر سمیت دنیا میں جہاں بھی انہوں نے حکمرانی کی وہاں اپنا نمائندہ یا وائسرائے کی شکل میں بھیجتے تو بھیجے جانے سے پہلے اس آفیسر کی اس علاقے سے رسم ورواج ، زبان ، ثقافت ، روایات سے متعلق تربیت کی جاتی اور جو آفیسر اس ٹریننگ میں کامیاب ہوتا تو اسے وہاں پر تعینات کیا جاتا ۔ انگریز نے ہم پر دو سو سال حکومت کی غیر مسلم اور دوسری نسل سے ہونے کے باوجود انہوں نے ہمارے مذہب ، عزت اور ننگ وناموس کا خیال رکھا اور ہماری عزت اس طرح تار تار نہیں کی جو آج کی جارہی ہے ان کی اور ہماری رسومات میں زمین آسمان کا فرق تھا اگر ہمارا کوئی ساتھی شہید ہوجاتا اور اسے دفنانے کے لئے وہاں لوگ نہ ہوتے تو وہ شہداء کی بے حرمتی کی بجائے اسے خود دفناتے مگر آج جو وائسرائے اسلام آباد سے پولیس آفیسر یا بیوروکریٹ کی شکل میں آتے ہیں وہ بلوچستان کے خیر خواہ نہیں اور نہ ہی یہاں کے رسم ورواج ، ثقافت اور ہمارے علاقے اور معاشرے سے واقف ہوتے ہیں ۔ ایسے میں وہ ہماری خدمت یا لوگوں کی حفاظت کیسے کریں گے ان آفیسروں کا تعلق جہلم ، پنڈی یا کہیں سے بھی ہوں صرف صدر یا وزیراعظم ہاؤس سے اپروچ ضروری ہے ۔ انہوں نے کہاکہ 1947 سے لے کر آج تک ہم نے جو بویا وہ آج کاٹ رہے ہیں بلوچستان میں 4 ملٹری آپریشنز ہوئے امن وامان کی جو صورتحال آج خراب ہے وہ انہی آپریشنوں کی وجہ سے ہے ہم ان 4 آپریشنز کو چھوڑ کر جنرل مشرف کے پانچویں آپریشن کی بات کرتے ہیں جب بلوچستان میں آگ لگائی گئی بدقسمتی سے اسی ایوان میں جنرل مشرف کے قصیدے پڑھے گئے اور آج جو صورتحال ہے وہ اسی آپریشن کی وجہ سے ہے ہم آج بھی اس ایوان میں امن وامان پر بحث کرلیں گے مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ ہم یہاں بیٹھ کر ان قوتوں کی جانب اشارہ نہیں کرسکتے جن کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے ہیں ۔ حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال 60 فیصد بہتر ہوگئی ہے ہم مزید رعایت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حالات 90 فیصد تک درست ہیں اگر ایسا ہے تو پھر وزیراعلیٰ ، وزراء ، ارکان اسمبلی اور بیوروکریٹس اتنے بڑے اسکواڈز لے کر کیوں لیتے ہیں ۔ اغواء برائے تاوان یہاں کا اہم مسئلہ ہے پہلے یہاں سے لوگوں کو اغواء کرکے سندھ کے جنگلوں میں لے جایا جاتا تھا آج بلوچستان اغواء برائے کی وارداتوں میں سر فہرست ہے ۔ ڈاکٹر مناف ، ڈاکٹر منوج کمار سمیت بہت سے لوگ اغواء ہوئے اور جنتے لوگ اغواء ہوتے ہیں وہ تاوان ادا کرکے بازیاب ہوتے ہیں اگر ایسا نہیں تو حکومت تفصیل سے آگاہ کرے کہ کتنے لوگوں کو بازیاب کراچکی ہے یہاں صحافی بھی محفوظ نہیں جناح روڈ جیسے رش والے علاقے میں صحافی اپنے دفتر میں قتل ہوتے ہیں ، خضدار اور پنجگور کے پریس کلبز بند ہیں صوبے میں جہاں بھی سیاسی سوچ یا قوم پرستی کے اثرات ہیں وہاں کاروائی زیادہ ہوتی ہے ۔ گزشتہ سال وڈھ میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں لیویز کے 8 اہلکار قتل کئے گئے حکومت کی جانب سے صرف اتنی کاروائی ہوئی کہ دو روپے کی ایف آئی آر درج کی گئی لیکن قاتل پکڑے نہیں گئے بلکہ ایف آئی آر میں نامعلوم افراد کا ذکر ہے جبکہ حکومت کو معلوم ہے کہ یہ لوگ نامعلوم نہیں بلکہ معلوم ہیں یہ ایک واقعہ نہیں ایسی بے شمار ایف آئی آر کاٹ کر فائلوں یا الماریوں میں دھول میں پھینک دی گئی ہیں آج 9 مارچ ہے آج سے ایک سال پہلے اسی روز ہمارے پارٹی کے رہنماء عطاء اللہ محمد زئی کو بھرے بازار میں دو ساتھیوں سمیت قتل کردیا گیا حکومت کو قاتلوں کا علم ہے مگر ایف آئی آر میں نامعلوم افراد درج ہے پچھلے سال وڈھ سے 4 افراد کو ایف سی نے گرفتار کیا میں نے بذات خود لندن سے وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کو فون کرکے صورتحال سے آگاہ کیا انہوں نے ہمیں تسلی دی چونکہ میں دیار غیر میں تھا اور کچھ کر بھی نہیں کرسکتا تھا ٹھیک ایک ماہ بعد انہی نوجوانوں کو ایف سی کے ساتھ جعلی مقابلے میں مار کر لاشیں حوالے کردیں اور ساتھ ہی بتایا گیا کہ یہ دہشت گرد ہیں اور ان سے اتنی تعداد میں اسلحہ اور بارود بھی برآمد ہواجبکہ اغواء کئے جانے والے 5 نوجوان آج بھی لاپتہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ صرف 2013 میں 23 افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں 2014 میں 70 لاشیں پھینکی گئیں جو شناخت کے قابل تھیں جبکہ ایک سو 3 لاشیں ایسی تھیں جو شناخت کے بھی قابل نہ تھیں ان میں سے 26 لاشیں پشتون علاقوں سے ملی ہیں معلوم نہیں آبادی بلوچوں کی زیادہ ہے یا پشتونوں کی مگر آبادی بلوچوں کی کم کی جارہی ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد ہمارے یو سی چیئرمین ناصر کلمتی کو قتل کیا گیا۔ زاہد آسکانی جو ایک نجی تعلیمی ادارہ چلاتے تھے ان کو قتل کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ یہاں تعلیم کی کوئی گنجائش نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ صوبے سمیت پورے خطے میں امن قائم کرنے کے لئے مقتدر لوگوں نے کوئی عمل نہیں کیا جس سے محسوس ہو کہ وہ یہاں پر امن چاہتے ہیں ۔ امن وامان کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہمسایوں کے معاملات میں مداخلت ہے ہمسایوں کے کھیلوں کے میدانوں کو قبرستان بنانے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہاں سے قندھاری آنار ، خشک میوہ یا انگور آئیں گے تو یہ سوچ غلط ہے جب تک حکمران اپنی سوچ تبدیل چھوٹے صوبوں کے حقوق ، ساحل وسائل پر ان کا اختیار تسلیم نہیں کریں گے اس وقت تک یہاں امن قائم نہیں ہوگا ۔ اس موقع پر صوبائی وزیراطلاعات قانون و پارلیمانی امور عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ چونکہ امن وامان کا مسئلہ اہم ہے اور تمام ارکان اس پر بحث کرنا اور تجاویز دینا چاہتے ہیں لہذا آج کی کاروائی کل تک کے لئے ملتوی کی جائے اور کل بھی اسی مسئلے پر بحث کی جائے جس پر پینل آف چیئرمین کی رکن سپوژمئی اچکزئی نے اسمبلی کا اجلاس منگل 4بجے تک کے لئے ملتوی کردیا ۔