کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے صوبے میں امن وامان کی صورتحال کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں بہتری لانے کی مزید کوششیں جاری رہے گی ، مشرف کا آپریشن اور مسخ شدہ لاشوں کا واویلا مچانے والے آج ان لوگوں کے صفوں میں شامل ہوگئے جو کل تک مشرف کے لئے قصیدے پڑھتے تھے ، حکومتی رٹ چیلنج اور آئین کے فریم ورک سے باہر بات کرنے والے دہشت گرد ہیں ان کے خلاف حکومت آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی ، صوبے میں پہلی بار ڈپٹی کمشنر اورڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی پوسٹنگ ٹرانسفر میں کوئی سیاسی ، قبائلی مداخلت نہیں ہورہی ۔ ان خیالات کا اظہار بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وزیرداخلہ سرفراز بگٹی ، وزیر صحت رحمت بلوچ ، وزیر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر حامد اچکزئی ، وزیرکھیل مجیب الرحمن محمد حسنی ، ڈاکٹر شمع اسحاق اور دیگر نے امن وامان پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا ۔ صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے نومنتخب سینیٹروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات میں میری پارٹی متحد نہ رہ سکی اگر متحد رہتی تو زیادہ بہتر نتائج دے سکتے تھے انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالواسع نے گزشتہ روز اپنی تقریر میں ایک مرتبہ پھر ناراض بلوچوں کا لفظ استعمال کیا ہے جبکہ یہ لفظ اس سے پہلے ایک حکومتی رکن نے استعمال کیا تھا اور ڈپٹی اسپیکر جو اجلاس کی صدارت کررہے تھے انہوں نے ان الفاظ کو حذف کرایا تھا لہذا ان الفاظ کو دوبارہ حذف کیا جائے جس پر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت مختلف حکومتی عہدیدار یہ لفظ بارہاں استعمال کرچکے ہیں ۔ پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی اپنی ایک پریس کانفرنس میں یہ لفظ استعمال کیا جبکہ نوا ز شریف سمیت تمام حکومتی عہدیدار ناراض بلوچ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اگر پابندی ہے تو پھر کوئی یہ لفظ استعمال نہ کرے اور اگر دوسرے یہ استعمال کرتے ہیں تو میری تقریر سے یہ لفظ حذف نہ کیا جائے ۔ سرفراز بگٹی نے امن وامان کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ روز سردار اختر مینگل جن کا صوبے کی قبائلی اور سیاسی حوالے سے اہم مقام ہے لیکن آج وہ یہاں تشریف نہیں لائے ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر ژوب کے حوالے سے کافی باتیں ہوئی ، سانحہ پشاور کے بعد ملک کی پوری سیاسی قیادت اسلام آباد میں اکھٹی ہوئی جہاں پر نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا اور اس پر عمل درآمد کیا جارہا ہے اور وزیراعظم نے واضح طور پر اپنے خطاب میں کہا کہ اچھے اور برے طالبان کا فرق ختم ہوچکا ہے ژوب میں آپریشن سے وہاں صورتحال بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں حکومت اپنی پالیسی کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کررہی ہے اور جب حکومت کاروائی کرتی ہے تو پھر اپوزیشن کی طرف سے تنقید کی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امن وامان پر ہم پہلے بھی کئی بار یہاں پر بحث کرچکے ہیں مگر انجینئر زمرک خان کے سوا دیگر ارکان نے کبھی تجاویز نہیں دیں اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ارکان بحث کے ساتھ تجاویز بھی دیں تاکہ امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے مزید اچھی پالیسیاں بنائی جاسکیں ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے انتظامی حوالے سے کئی ایک اقدامات کئے ہیں جن سے صوبے میں اس سال جرائم کی وارداتوں میں 40 فیصد جبکہ اغواء برائے تاوان جو ماضی میں ایک کاروبار بن چکا تھا اس کی وارداتوں میں 60 سے 70 فیصد تک کمی آچکی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس وقت شورش زدہ خطے میں ہیں جبکہ پورا ملک حالت جنگ میں ہے اس کے باوجود بلوچستان میں جرائم کی وارداتوں کی شرح پنجاب کے فیصل آباد ڈویژن سے بھی کم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امن وامان کے قیام میں سب سے اہم کردار قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہوتا ہے اور ہم نے آتے ہی ان اداروں کی استعداد کار میں اضافہ اور انہیں جدید اسلحہ و گاڑیوں سے لیس کیا ہے پولیس کا مورال جو بری طرح سے گر چکا تھا ہم نے اسے بہتر بنایا ۔ پولیس کے محکمے میں سیاسی عمل دخل کا سلسلہ بند کردیا ہے اب وزیراعلیٰ ، کوئی وزیر ، رکن صوبائی اسمبلی ، ایم این اے ، سینیٹر ، کوئی قبائلی یا سیاسی رہنماء کی پسند کی بنیاد پر ڈی پی او یا کوئی اور اہلکار کی پوسٹنگ ٹرانسفر نہیں ہوتی یہ تمام عمل پولیس حکام خود انجام دیتا ہے ۔لیویز فورس کو جدید خطوط پر استوار کردیا ہے ۔90 فیصد علاقہ لیویز کے پاس ہے اس کو بہتر بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز سردار اختر مینگل نے فلور پر بلوچستان کے حالات کے روٹ کازز جاننے کی بات کی جس کی میں حمایت کرتا ہوں اسمبلی فلور پر اس روٹ کازز کے حوالے سے بحث کی جائے جہاں کوتاہی سرزد ہوئی ہے ان کی نشاندہی کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ دوسری جانب ملٹری آپریشن کی بات کی گئی کسی بھی ملٹری آپریشن کے پیچھے عوامل کارفرما ہوتے ہیں کوئی آدمی اپنے عوام پر خوامخواہ نہیں چڑھ دوڑتی ۔ انہوں نے کہاکہ سردار اختر مینگل نے اپنی تقریر میں مسخ شدہ لاشوں کا بھی ذکر کیا کاش وہ ہمارے پارلیمانی لیڈر کے بچوں ، عام بلوچوں ، پولیس ، لیویز ، ایف سی اہلکاروں کے ساتھ پیش آنے ان واقعات کا بھی ذکر کرتے جن کے جسم کے چھیتڑے بموں اور بارودی بموں سے اڑائے گئے ان پولیس اور لیویز اہلکاروں کا کیا قصور ہے جو ملک کے کونے کونے سے آکر یہاں خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن ان کونشانہ بنایا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی چاہے قومیت ، مذہب یا لسانیت کے نام پر ہو دہشت گردی ہے ۔ صوبے میں کوئی ناراض نہیں مرنے اور مارنے کے واقعات میں ملوث لوگ کریمنل ہیں وہ بندوق کی بجائے بات چیت اور اسمبلی میں آکر بات کرے ۔ حقوق کی بات جنگ وجدل سے نہیں ہوتی اور نہ ہی بندوق کے زور پر کوئی اپنا بات منوا سکتا ہے۔ آئین کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ عام لوگوں کو نشانہ بنائے جو بھی کرنا ہے وہ ایوان میں آکر بات کرے۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ میں لیویز اہلکاروں کی اہلیت سے متعلق مڈل پاس کی جس شرط کی منظوری دی ہے اس پر ہر حال میں عمل درآمد کیا جائے گا ۔ کابینہ سب سے مقدم ہے جو بھی بات ہوگی اس پر عمل درآمد بھی ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ میں دعویٰ تو نہیں کرسکتا کہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن حالات میں کافی حد تک بہتری آئی ہے ۔ گزشتہ حکومت میں شامل لوگوں نے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا اسی وجہ سے الیکشن میں وہ ہار گئے اب اگر ہم بھی عوام کو ڈیلیور نہیں کریں گے تو آنے والے الیکشن میں وہ ہمارا بھی احتساب کریں گے ۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اسمبلی ممبران کے لئے ایک خصوصی بریفنگ کا اہتمام کیا جائے جس میں انہیں بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات غیر ملکی ایجنسیوں کی مداخلت اور ان کے کارناموں سے متعلق تفصیلی دی جائے گی کہ یہ لوگ کس طرح پاکستان کے خلاف سازش کرکے کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔ وزیر صحت بلوچستان رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ صوبے میں امن وامان کا مسئلہ درپیش ہے لیکن ہم یہ دعویٰ تو نہیں کرتے کہ سو فیصد حالات درست ہوئے ہیں لیکن یہ دعویٰ ضرور کرتے ہیں کہ 70 فیصد واقعات میں کمی آئی ہے ہمیں ماضی کے حالات کو دیکھ کر شترمرغ کی طرح آنکھیں بند نہیں کرنا چاہیے میڈیا سمیت سب کو پتہ ہے کہ ماضی میں کیا ہوتا رہا اور اب کیا ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں پراکسی وار چل رہی ہے بدامنی کے باعث لوگ گھروں سے نہیں نکل سکتے تھے ادارے یرغمال اور مفلوج بنائے گئے تھے بے بسی کی وجہ سے ادارے تباہ ہوگئے تھے صورتحال اس طرح نہیں ہوتی جس طرح بنایا گیا ۔ ہم پر آج تنقید کرنے والی اپوزیشن یہ بتائے کہ وہ کونسا دور تھا جب یہاں 80 لاشیں رکھی ہوئی تھیں اور کہا جاتا تھا کہ رونے والوں کے لئے ٹشوپیپر کے ٹرک بھیج دیں گے ، سیاسی جلسوں کے اسٹیج سے جو زبان استعمال کی جاتی تھی وہ سب جانتے ہیں اور باقاعدہ یہ ترغیب دی جاتی تھی کہ مزدوروں ، اساتذہ کو مارو ، گاڑی کی اکھاڑ پچھاڑ سے متعلق جو مثال دی گئی اس کردار کے لوگوں کے ساتھ آج وہ ایک پلیٹ فارم پر بیٹھ ہوئے ہیں میڈیا میں باقاعدہ یہ طعنہ دیا جاتا تھا کہ وزیراعلیٰ یا وزراء کب بلوچستان کے دورے پر جائیں گے آج کم سے کم وزیراعلیٰ اور کابینہ کے وزراء کو یہ طعنے نہیں دیئے جارہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اقتدار چیلنج کے طور پر لیا ہم نے کہا تھا کہ ہمارے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں کہ راتوں رات چیزیں ٹھیک کردیں گے جب ہم یہاں آئے تو نوجوانوں کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا لوگ مایوسی کے شکار تھے تعلیم یافتہ لوگ یہاں سے ہجرت کرکے چلے گئے تھے مگر آج وہ لوگ واپس آرہے ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حالات بڑی حد تک بہتر ہوگئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اس وقت جن مشکلات کا سامنا ہے وہ 20 سال پرانے ہیں اور 20 سال کے گند کو چند دنوں میں ٹھیک نہیں کیاجاسکتا اس کے لئے کئی سال درکار ہوں گے ۔ موجودہ حکومت نے امن وامان کو بہتر بنانے کے لئے موثر اقدامات کئے ہیں کل تک جو لوگ اپنے آبائی علاقوں میں نہیں جاسکتے تھے آج وہی لوگ فاتحہ خوانی اور دوسرے کاموں کے لئے باآسانی جارہے ہیں خضدار کل تک ایسے لوگوں کے لئے نو گو ایریا تھا لیکن آج وہ سرعام اپنے علاقے میں گھوم رہے ہیں ۔ مشرف کے آپریشن کی بات کرنے والے یہ کیوں بھول گئے کہ آج وہ مشرف کے ساتھ والوں کے صفوں میں شامل لوگوں کے قریب ہیں ڈی پی اوز ، ارکان اسمبلی اور وزراء کے ذاتی ملازم بنے ہوئے تھے آج ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او فرائض کی انجام دہی کے لئے جرأت مندانہ کردار ادا کررہے ہیں ۔ ماضی میں قومی شاہراہوں پر بھتہ وصول کیا جاتا تھا ایوان میں وزراء پر الزام لگائے گئے کہ وہ اغواء برائے تاوان میں ملوث ہیں آج یہ طعنہ کوئی کسی وزیر کو نہیں دے سکتا ۔ ڈر کے مارے وزراء نے اپنے گھروں میں دفاتر قائم کئے تھے ، مسخ شدہ لاشوں کی باتیں کرنے والے یہ بھول گئے کہ ان کے دور میں روزانہ پندرہ پندرہ لاشیں ملتی تھیں ، ڈاکٹر ، ڈرائیور مزدور سمیت سب ذہنی دباؤ کا شکار تھے ۔ سرکاری ریسٹ ہاؤسز میں اغواء برائے تاوان کی رقم وصول کی جاتی تھی آج ایسا کچھ نہیں ہورہا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو امن وامان کے قیام کے لئے ایمانداری سے کام کرنا ہوگا ۔ وزیر کھیل وثقافت مجیب الرحمن محمد حسنی نے کہا کہ ماضی کے مقابلے میں امن وامان کی صورتحال میں کافی حد تک بہتری آئی ہے پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں اب بلوچستان کی مثال دی جاسکتی ہے ماضی میں وزیر داخلہ نے اسمبلی فلور پر اغواء میں ملوث وزراء کی نشاندہی کی تھی جس کا بعد میں کورٹ نے بھی نوٹس لیا ۔ قلعہ عبداللہ ، خضدار اور نوشکی ہائی وے پر دن کو جانے سے لوگ کتراتے تھے اب باآسانی سفر کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امن وامان کی بحالی میں لیویز فورس کا کردار بنیادی ہے اگر ہم لیویز کو مزید جدید اور مستحکم بنائیں تو حالات میں مزید بہتری آسکتی ہے ۔ لیویز کی حالیہ بھرتی کے لئے جو میٹرک کی شرط رکھی گئی وہ زیادتی ہے ہمارے ہاں تعلیمی سسٹم درست نہیں اس لئے ضروری ہے لیویز فورس کی بھرتی کے لئے مڈل کی شرط عائد کی جائے ، کابینہ نے بھی اس کی منظوری دی ہے لیکن اب تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ واشک چالیس ہزار کلو میٹر پر محیط علاقہ ہے وہاں صرف 2 سو 40 لیویز اہلکار ہے جبکہ صرف تحصیل سوراب میں 280 اہلکار موجود ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لیویز کو بھی آرمی طرز کی تربیت دی جائے ۔ ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ اپوزیشن تجاویز کی بجائے الزامات عائد کررہی ہے ہم آنکھیں نیچی کرکے ان کی باتیں نہیں سن سکتے ہمارے پاس ان کو جواب کے لئے ثبوت موجود ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اسمبلی کو ڈمی کہنے والے اب خود اسمبلی میں آکر بیٹھ گئے ہیں یہ میرے لئے خوشی کی بات ہے کہ یہی لوگ کم سے کم الیکشن کے وقت اپنے عوام کے ساتھ جو وعدے کئے تھے اس کے لئے اب اسمبلی آنا شروع ہوگئے ہیں۔ موجودہ حکومت پر تنقید کرنے والے یہ بتائیں کہ جب چاغی میں دھماکہ ہوا تھا اس وقت اس صوبے کے حکمران کون تھے ۔ سیندک کا سودا کن لوگوں نے کیا ہے سب کو پتہ ہے نیشنل پارٹی نے شہداء کے خون سے اپنے ساحل وسائل کی حفاظت کی ہے ہم یہ پوچھنے کے حق بجانب ہے کہ نواب اکبر بگٹی اور بالاچ مری کو کس کے دور میں شہید کیا گیا اس وقت تک ہماری حکومت نہیں تھی ۔ مولانا صاحب کہتے تھے کہ ہمیں بڑی گاڑی دی جائے ان کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی انہیں صرف مراعات درکار تھے ۔ ہم ترقیاتی فنڈز کھانے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں اور اپنا ضمیر کا سودا کبھی نہیں کریں گے ۔ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد امن وامان میں بہتری آئی ہے فیسٹول ، کانفرنسوں کا انعقاد کیا جارہا ہے خاران میں گینگ وار کو پکڑا جس کی وجہ سے عوام میں خوش کی لہر دوڑ گئی پہلے تو لوگ خریداری نہیں کرسکتے تھے ۔ ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ صوبے کا امن وامان سب کے لئے اہم ہے ایک دوسرے کو طعنے دینے کی بجائے اس کے لئے کام کیا جائے انہوں نے کہا کہ ہم نے جمہوری جدوجہد ایمانداری سے کی ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کی مذمت کرتے رہے ہماری اس جدوجہد کی بدولت آج لوگوں کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ کسی بھی بے گناہ غریب کے قتل کی مذمت کرتے ہیں جو وہ کل نہیں کرسکتے تھے سابق دور میں یہاں پر پروفیسروں ، اساتذہ ، ڈاکٹروں کو قتل کیا گیا مگر اس کی کسی نے مذمت نہیں کی ۔ ہماری قومی شاہراہیں غیر محفوظ تھیں مگر اس پر کوئی آواز بلند نہیں کرتا تھا آج موجودہ جمہوری حکومت نے عوام کو حوصلہ دیا کہ وہ اس پر بات کریں ۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ کل تک افغانستان میں مداخلت پر خاموش رہے ہماری جدوجہد کے بدولت آج وہ بھی اس کی مذمت کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اچھے اور برے کی تمیز ختم کرکے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا ۔ امن وامان کے قیام کے لئے ہم سب کو متحد ہونا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ کو اس بات کا کریڈٹ دیتے ہیں کہ ان کی کوششوں سے صوبے میں 70 سے 80 فیصد امن قائم ہوگیا ہے ۔