|

وقتِ اشاعت :   March 14 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے سرکاری ملازمتوں میں 5 فیصد کوٹے پر عمل درآمد فنی و تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کے پانچ فیصد کوٹے کو مختص کرنے ، سنجاوی میں گرلز انٹر کالج کے قیام ، اسمنگلی روڈ پر واقع خطرناک موڑ کو سیدھا کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے اور کوئٹہ شہر میں پلازوں کی تعمیر کے لئے بلڈنگ کوڈ پر عمل درآمد کرنے سے متعلق قرار دادیں منظور کرلیں ۔ اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹے کی تاخیر سے اسپیکر جان محمد جمالی کی صدارت میں شروع ہوا ۔ وزیر صحت کی عدم موجودگی پر سوالات اگلے اجلاس تک کے لئے موخر کردیئے ۔ وزراء کی عدم موجودگی اور سوالات کے جوابات نہ دینے پر اپوزیشن ارکان نے احتجاج کیا جبکہ بعض حکومتی ارکان نے بھی اپوزیشن کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اس ایوان کا تقدس بحال رکھنا سب کی ذمہ داری ہے ۔ عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ وزراء کے غیر حاضر ہونے سے سوالات کے جوابات ہر بار موخر کئے جاتے ہیں جس پر بھاری خرچہ آتا ہے اگر وزیر موجود نہیں ہوتا تو اپنے ساتھی کو یہ ذمہ داری سونپ دے اور متعلقہ سیکرٹری اس ممبر کی رہنمائی کرے تاکہ وہ اسمبلی کے اندر سوالات کے جوابات دے ۔ پرنس احمد علی نے کہا کہ سوالات کے جوابات نہ ملنے سے محکموں کی کارکردگی سے عوام آگاہ نہیں ہوتے اس لئے ضروری ہے کہ جو سوالات کئے جاتے ہیں ان کے جوابات ایوان میں ہونا چاہیے ۔ ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہا کہ بعض اوقات مختلف محکموں کی جانب سے سوالات کے جوابات موصول نہیں ہوتے یہ غیر سنجیدہ عمل ہے اس کو سنجیدہ لینا چاہیے جو سوال پوچھے جاتے ہیں متعلقہ محکمہ پوری اور بروقت جواب دے ۔ حسن بانو رخشانی نے کہا کہ وزراء سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوالات کا جواب دیا کریں ۔ ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ جوابات آنے پر ہی ممبران مطمئن ہوتے ہیں لہذا جوابات کے لئے وزراء کو ایوان میں آنا چاہیے ۔ عبدالرحمن زیارتوال نے کہا کہ اپوزیشن نے جو نکتہ اٹھایا ہے وہ صحیح ہے جو وزراء نہیں آتے وہ کسی اور ساتھی کی ڈیوٹی لگادے تاکہ سوالات کے جواب دیئے جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی کا جو رول ہے اس کے تحت سب کو چلنا چاہیے ہر ایک کو اپنا حق ملنا چاہیے ۔ جعفر خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ ہی سپریم ہے اگر ہم سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا تمام محکمے اسمبلی کے ماتحت ہیں انہیں جواب دینا چاہیے وزراء اراکین اسمبلی کو مطمئن کریں جس کے بعد پشتونخوامیپ ملی عوامی پارٹی کے رکن ولیم جان برکت نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان کے مطابق مذہبی اقلیتوں کیلئے ملازمتوں کے حصول کیلئے کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے اور سرکاری ملازمتوں میں 5فیصدکوٹہ مختص کیا گیا ہے لیکن اس پر کم و بیش عمل کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں احساس محرومی بڑھتا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ سرکاری محکموں میں نئی بھرتیاں کرتے وقت اقلیتی کوٹہ پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنائے اور ساتھ ہی متعلقہ محکموں کے سربراہوں کوجوابدہ بھی بنائے نیز تمام فنی تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کیلئے پانچ فیصد کوٹہ مختص کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی کیلئے اقلیتوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے تعلیم و صحت سمیت مختلف شعبوں میں اقلیتوں نے اہم کردارادا کیا ہے اقلیتی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا کردارادا کر رہے ہیں مگر بدقسمتی سے سابق دور حکومت میں اقلیتوں کے کوٹے پر مسلم برادری کے لوگوں کو تعینات کیا گیا جس سے ہماری برادری کے نوجوانوں میں احساس محرومی پایا جاتا ہے اسی طرح فنی تعلیمی اداروں میں بھی اقلیتی کوٹے پر پولی ٹیکنک کالج کے علاوہ کہیں عمل نہیں ہوتا اس پرعملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔نیشنل پارٹی کی رکن ڈاکٹر شمع اسحاق نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں اقلیتوں کا خیال رکھا جاتا ہے پنجاب میں بھی اقلیتی کوٹے پر عمل ہورہا ہے یہاں بھی ہونا چاہئے ۔وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے یقین دلایا کہ صوبائی حکومت اقلیتوں کے لئے ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹے پر عملدرآمد کو یقینی بنارہی ہے اجلاس میں قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے حاجی گل محمد دمڑ نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضلع زیارت کی تحصیل سنجاوی کی آبادی پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے لیکن تاحال وہاں گرلز انٹرکالج کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا جس کی وجہ سے اکثر طالبات میٹرک پاس کرنے کے بعد تعلیم جاری رکھنے سے محروم رہ جاتی ہیں جس کی بنیادی وجہ قبائلی رسم و رواج اور غربت ہے اکثر والدین اپنی بچیوں کو ہاسٹل میں رہائش کی اجازت نہیں دیتے جس کی وجہ سے وہاں طالبات احساس محرومی کا شکار ہیں لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ تحصیل سنجاوی میں گرلز انٹرکالج کا قیام عمل میں لایا جائے۔انہوں نے کہا کہ سنجاوی میں گرلز ہائی اسکول کا قیام 1992ء میں عمل میں لایا گیا جہاں اس وقت 600بچیاں زیر تعلیم ہیں اور ہر سال 80کے قریب طالبات میٹرک پاس کرتی ہیں مگر انٹرکالج نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں اسپیکر نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ جہاں انٹر گرلز کالج نہیں وہاں حکومت ہائی اسکولز کو انٹر کالج کا درجہ دے تاکہ لڑکیاں تعلیم حاصل کرسکیں ۔صوبائی وزیر اطلاعات قانون و پارلیمانی امور عبدالرحیم زیارت وال نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم مسئلہ ہے سنجاوی زیارت سے 50کلو میٹر جبکہ لورالائی سے بھی 30کلو میٹر کے فاصلے پر ہے سنجاوی کی بڑی آبادی ہے مگر اتنی نہیں جتنی محرک بتا رہے ہیں اسکے باوجودسنجاوی کی آبادی کو دیکھتے ہوئے ہم اسے میونسپل کمیٹی بھی بنانا چاہتے ہیں میں اسکول کا دورہ کرچکا ہوں زیارت میں پہلے کالج کی منظوری دے چکے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ وہاں بھی ہاسٹل نہیں طالبات کو آنا جانا پڑے گا اور سنجاوی سے شاید طالبات نہ آسکیں دوسری جانب وہاں پر اساتذہ کیلئے رہائش کا مسئلہ بھی حل کرنا ہوگا اسکے بغیر وہاں اساتذہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔انہوں نے کہا کہ گرلز کالج کی کلاسیں ہائی اسکول میں شروع کرنے پر غور کریں گے اور سنجاوی میں گرلز کالج کا قیام ترجیحات میں شامل ہے۔ ایوان نے یہ قرار داد بھی متفقہ طور پر منظور کرلی۔اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کی رکن اسمبلی حسن بانو نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی دارالحکومت کی آبادی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ساتھ ہی شہر کے وسطی و نواحی علاقوں میں ہاؤسنگ اسکیم ،فلائٹس ،پلازے بلڈنگ کوڈ اور میونسپل کارپوریشن سے اجازت نامہ لئے بغیر تعمیر کئے جارہے ہیں اور ان میں پارکنگ اور پبلک ٹائیلٹس کی سہولت بھی فراہم نہیں کی جارہی جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ چونکہ کوئٹہ شہر زلزلہ زون میں واقع ہے اس لئے یہاں نئی تعمیر ہونے والی عمارات بلڈنگ کوڈ کے تحت تعمیر کی جائیں اور جو کوڈ کے خلاف تعمیر کی گئی ہیں انکے خلاف کارروائی کی جائے اوراسکے ذمہ داروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ مسلم لیگ(ن) کے رکن پرنس احمد علی نے کہا کہ اس حوالے سے لوکل گورنمنٹ کا اہم کردار بنتا ہے کہ وہ مقررہ حد سے زیادہ اونچی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت نہ دے کوئٹہ پورے ملک میں خطرناک زلزلہ زون پر واقع ہے لہذا اس سلسلے میں احتیاط کا مظاہرہ کیا جائے۔ نیشنل پارٹی کی رکن ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ شہر میں بلڈنگ کوڈ پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہئے بلڈنگ کوڈ کے برعکس بننے والی عمارتیں ماحولیات پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور اس سے انسانی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ صوبائی مشیر تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ نے کہا کہ جاپان وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں مگر وہاں 100منزلہ عمارتیں موجود ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ بلڈنگ کوڈ پر عملدرآمد کیا جائے بلڈنگ اسٹرکچر کو تبدیل کیا جائے اونچی عمارتیں بنانا زیادہ اہم مسئلہ نہیں 1935ء کے زلزلے میں کچی دیواریں اور عمارتیں گرنے سے زیادہ نقصان ہوا کنسٹرکشن کو بہتر بنایا جائے ۔صوبائی وزیر کھیل و ثقافت مجیب الرحمن محمد حسنی نے کہا کہ شہر میں تیزی سے کئی منزلہ عمارتیں بنائی جارہی ہیں مگر کہیں ان عمارتوں میں پارکنگ کی سہولت نہیں آئندہ کہیں بھی پارکنگ کے بغیر پلازے بنانے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ جو پلازے بنائے جاتے ہیں انکی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہورہا ہے ۔صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ اب بھی شہر میں زیادہ عمارتیں ایک یا دو منزلہ یا پھر کچے ہیں مسئلہ بڑے پلازوں اور عمارتوں کا ہے صرف کوئٹہ ہی نہیں بلکہ چمن اور اس سے آگے بھی خطرناک زلزلہ زون ہے کوئٹہ سمیت جہاں جہاں زلزلہ زون ہیں وہاں بلڈنگ کوڈ پرعملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ صوبائی وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہا کہ اسلام آباد سمیت تمام بڑے شہروں میں کمرشل اور رہائشی عمارتوں کے الگ الگ بلڈنگ کوڈز ہوتے ہیں ماضی میں کوئٹہ میں تمام بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھے بغیر بڑے بڑے پلازوں کیلئے این او سی دیئے گئے بلڈنگ کوڈ پر عملدرآمد اور کمرشل پلازوں کیلئے پارکنگ ضروری ہوتی ہے مگر یہاں پر اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا بلڈنگ کوڈ کو شہر کی ضرورت کے مطابق ازسرنو بنایا جائے اور فوری طور پر بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بناکر کسی ایک محکمے کے ماتحت کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ شہر کے مقابلے میں آج بھی کنٹورنمنٹ بلڈنگ کوڈ پر سختی سے عملدرآمدکیا جاتا ہے یہاں بھی ہونا چاہئے۔ صوبائی وزیر پی ایچ ای نواب ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ 1935ء میں کوئٹہ میں اتنی بڑی عمارتیں نہ ہونے کے باوجود بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے اس وقت شہر میں بڑی عمارتیں بن رہی ہیں مگر ان پر کوئی چیک نہیں مختلف عوامی مسائل کا کورٹ کی جانب سے نوٹس لیا جاتا ہے ہم عوامی نمائندے اور منتخب ایوان بھی موجودہے مگر اس ایوان کے فیصلوں پر 20فیصد بھی عمل نہیں ہوتا بیورو کریسی کا اپنا سٹائل ہے آج بھی ہم یہ قرار داد منظور کرلیں گے اس پر عمل نہیں ہوگا بلکہ متعلقہ افسران کے بھاؤ بڑھ جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ بیورو کریٹس آتے جاتے ہیں سیاستدان مرتے دم تک سیاست کے میدان میں رہتے ہیں اور عوام ہمارا احتساب کرتے رہیں گے کابینہ نے بہت پہلے فیصلہ کیا تھا کہ ہر پلازہ میں پارکنگ کی سہولت ہوگی مگر اس پر عمل نہیں ہوا پارکنگ پلازہ کا اب تک کام مکمل نہیں ہوا 32فٹ کی پابندی کے باوجود 55فٹ کی عمارتیں بن رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اقدامات کرنے ہونگے ورنہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہم ٹی اے ڈی اے بنانے کیلئے آتے ہیں اور خزانے پر بوجھ ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہوگئے ہیں جبکہ رضا ربانی اور مولانا عبدالغفور حیدری جیسے سیاستدان چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوکر آئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب منتخب پارلیمنٹرین ہیں اور پوری ذمہ داری سے کام کر رہے ہیں اگر کہیں کوئی کمزوری ہے تو اسے دور کریں گے ہم یہاں ٹی اے ڈی اے بنانے نہیں آتے بلکہ ذمہ داری سے کام کر رہے ہیں لوکل گورنمنٹ کے وزیر سے کہتا ہوں کہ وہ بلڈنگ کوڈ پر عملدرآمدکو یقینی بنائے ۔جمعیت کے رکن اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ بڑے پلازے بنانے والے بہت طاقتور لوگ ہیں میرے گھر کے قریب ایک پلازہ بنایاجارہا تھا جسے روکنے کیلئے میں نے وزیراعلیٰ سے بات کی مگر اسکے بعد زور آور لوگ میدان میں آئے اور پلازہ تعمیر ہوا جس کے خلاف میں عدالت میں بھی گیا ہوں انہوں نے کہا کہ اس بات کی تحقیقات کرائی جائیں کہ بڑے پلازے کس کی اجازت سے بنائے جارہے ہیں اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو کسی روز گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے سامنے بھی کوئی پلازہ بن سکتا ہے ۔صوبائی وزیر بلدیات سردار مصطفی ترین نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے سب سے پہلے قدم اٹھاتے ہوئے کوئٹہ شہر کے مسائل کے حل کیلئے کمیٹی بنائی جس میں مجھ سمیت کوئٹہ کے تمام ایم پی ایز شامل ہیں اور یہ کمیٹی تمام مسائل دیکھ کر وزیراعلیٰ کو آگاہ کرتی ہے میں یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے آنے سے تبدیلی آئی ہے ہم نے کئی غیرقانونی عمارتیں گرائیں کئی پرکام روکا بہت کام کیا ہے یہ درست ہے کہ بہت سے زور آور لوگ ان معاملات میں ملوث ہوتے ہیں مگر میئر ،ڈپٹی میئر اور کونسلروں کے آنے سے بہتری کیلئے کام شروع کردیا گیا ہے کئی اجلاس ہوچکے ہیں ہم سب نے ملکرکام کرنا ہے اگر تمام ارکان فیصلہ کرلیں کہ کسی نے کسی کی غلط سفارش نہیں کرنی ہے تو بہت بہتری آجائے گی ہم سب نے مشکلات کا حل تلاش کرنا ہے یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ شہر میں پارکنگ کے بغیر کسی عمارت کی تعمیرکا این او سی جاری نہیں کریں گے۔