|

وقتِ اشاعت :   March 14 – 2015

کوئٹہ : بلوچستان صوبائی اسمبلی کے جمعہ کے اجلاس میں پاک گرلز سکول کے مسئلہ پر حکومتی ارکان اپوزیشن کے ارکان اور حکومتی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ ڈاکٹر شمع اسحاق کا موقف الگ تھا۔ جبکہ دیگر ارکان اس مسئلہ پر بولنا چاہتے تھے جس پر سپیکر نے کہا کہ یہ مسئلہ اس وقت عدالت میں زیر سماعت ہے اور جومسئلہ عدالت میں زیر سماعت ہو اس پر باعث نہیں کی جاسکتی میں ارکان اسمبلی کی یہ مدد کرسکتا ہوں کہ پاک سکول کامسئلہ عدالت میں زیر سماعت میں اسمبلی خرچے آپ کو وکیل کر کے دیتا ہو ں جس میں محمد خان مینگل ایڈوکیٹ اور اخلاق شاہ ایڈوکیٹ شامل ہونگے وہ آپ کی ہر طرح کی مدد کرینگے ۔ کیونکہ اسمبلی میں کوئی بھی رکن اگر کوئی مسئلہ عدالت میں زیر سماعت ہیں تو ا س پر بحث نہیں کی جاسکتی وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ نے کہا کہ پاک سکول کو بند نہیں کیا جا رہاہے ا س کے دو حصے ہیں ایک سڑک کے اس طرف ہے جس میں 145دوسری جانب دوسری سڑک کے کنارے 180بچیاں زیر تعلیم ہے سکول بند نہیں کیا جا رہاہے جس سکو ل میں بچیوں کی تعداد کم ہیں اس کو دوسرے سکول میں زم کیا جا رہاہے وہ بھی اسی سکول کا حصہ ہم اس کو بند نہیں کرنا چاہتے ہیں ہم بھی اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں۔نیشنل پارٹی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ شمع اسحاق مسلم لیگ ن کی رکن صوبائی اسبملی راحیلہ درانی جمعیت علماء اسلام کی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ حسن بانو کا موقف یہ تھا کہ گذشتہ اسمبلی کے اجلاس کے دوران سپیکر پینل کی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ سپوژمئی نے سکول کے بارے میں ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھیں جس نے سکول کا دورہ کیا جس میں حسن بانو ، راحیلہ درانی، ڈاکٹر شمع اسحاق شامل تھیں دورہ کے دوران بچیوں نے بتایا کہ سکول کی دوسری جگہ منتقلی کے بعد وہ جگہ اس قابل نہیں کہ وہاں پر بچیوں کو تعلیم دی جائے بچیوں نے کہا ایسے جگہوں پر جانوروں کو بھی نہیں باندھا جا تا ہے ہم اس وہاں تعلیم کیسے حاصل کرینگے ۔ ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان خود کہتے ہیں کہ سکولوں بھرا جائے مگر یہاں پر سکول کو بند کیا جا رہاہے محترمہ حسن بانو کے کہا کہ سکول کا دورہ ہم نے کیا ہے مگر وہاں پر بچیاں اس سکول سے مطمین نہیں ہے لہذا اس مسئلے صحیح طریقے سے حل کیا جائے ۔