|

وقتِ اشاعت :   March 15 – 2015

کوئٹہ : آزاد فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹوں ڈائریکٹر زاہد احمدمینگل اور ایکشن ایڈ کے پروگرام آفیسر پروین ناز بلوچ نے ہفتہ کے روز کوئٹہ پریس کلب میں آزاد فاؤنڈیشن اور ایکشن ایڈکے زیر اہتمام ہونے والے میڈیا بریفنگ نے صحافیوں کو بتایا کہ بلوچستان کو ایک دفع پھر سخت خشک سالی کاسامناہے گذشتہ کئی مہینوں بلوچستان 29ااضلاع جن میں خاص کر نوشکی ، چاغی ، خاران قلات ، کوہلو ، بارکھان ، مسونگ ،خضدار ،آوران قلعہ عبداللہ ژوب ڈیرہ بگٹی اور واشک شامل ہی۔ ان علاقوں میں چراگاہیں خشک ہوچکی ہے ۔ اور پانی نہ ہونے کی سبب مالداروں کے لئے اپنے مال مویشیوں کو پالنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ حکومت بلوچستان نے گذشتہ اکتوبر میں قحط سالی سے نمٹنے کیلئے ایک ارب روپے لئے فنڈز کا اعلان کیاتھا لیکن پانچ مہینے گزر جانے کے باوجو عملی طورپر پروپیشنل ڈز اسٹر منجمنٹ اتھارٹی پی ڈی ایم اے اور دیگر متعلقہ اداروں کی طرف سے قحط سالی سے متاثرہ مالداروں اور کاشت کاروں کو کوئی امداد اور ریلیف نہیں پہنچائی گئی ہے اور نہ ہی عملی اقدامات کے طور پر کوئی سروے وغیرہ کی گئی ہیں۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان کا تقریباً ستر فیصد سے زائدلوگ مالداری اور زراعت سے بلاو اسطہ یا بل واسطہ تعلق ہیں۔ طویل خشک سالی اور قحط سے سب سے زیادہ مالدار متاثر ہو رہے ہیں۔مالدار معاشی مشکلات کا شکا رہے۔ مال مویشیوں کو چراگاوں پر مطلوبہ خوراک دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ابتک نوشکی خضدار ، اور دیگر اضلاع سے سینکڑوں مویشیوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں اور لاکھوں قیمتی مال مویشیوں کی ہلاکتوں کا سنگین خدشہ ہے۔ اسی طرح اونٹ جو بلوچستان ایک قیمتی جانور ہے۔ مالدار بحالت مجبوری انہیں کھڑیوں کے دام بیچ رہے ہیں۔ دوسری جانب مالداروں کے ساتھ جو مال مویشیاں موجود ہیں ان میں سے اکثر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ جن کے علاج کیلئے سردست ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔مالداروں نے قرضے پرمویشیوں کے لئے خوراک گھاس خریدی تھیں۔ اب بیمار اور کمزور مویشیوں کی بدالت مندی میں کم قیمت پر مویشیوں کی مانگ کیوجہ سے مالدار پریشان ہے کہ ان قرضہ جات کو کس طرح ادا رکرے۔ جبکہ ایسے علاقے جہاں پر لوگ کچے تالاب کا پانی پینے پر مجبور ہے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے کچی تالابیں۔بھی خشک ہوچکیں ہیں۔ اور پانی کی عدم ستیابی کی وجہ سے یہاں کی مکینوں کو کافی دشوار کا سامنا ہے۔ خشک سالی ، قدرتی آفت میں یہ بات زیادہ اہم اور توجہ ہوتی ہے ۔ کہ نہ صرف بھوکے اور کمزور اانسانوں کی خوراک اور ادویات پہنچائی جائیں بلکہ مال مویشیوں کو بھی سہولتیں مہیاں کی جائے اور ساتھ ہی زمین کی پیداوار صلاحیتوں اور طاقت کرمرنے یا ختم ہونے نہ دیاجائے یوں ایک طرف تو باغات اور فصلوں کی ذرعی زمینوں کو دیکھنا ہواگا۔ تو دوسری جانب بلوچستان کی رینج لینڈ قدرتی چراگاہوں کو بچانا ہوگا۔ اس میں موجود کئی اقسام کی مفید جڑی بوٹیوں اور ادویات پودوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ صوبائی وزیر اعلیٰ اس طرف توجہ سے کہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں موجود مالداروں کی مال مویشیوں کو فوری خوراک اور ادویات کی ضرورت ہے حکومتی ذمہ داران کی اس عدم توجہ یسے یہاں پرموجود لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی رسکت میں اور چونکہ یہاں کے لوگوں کا ذرائع معاش کا دارو مدار گلہ بانی ہے اگر مویشی نہ رہنگے تو لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہونگے۔ قحط سالی ور خشک سالی پر قابوں پانے کیلئے بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو ایک انسانی ، سماجی، المیہ جنم سکتا ہے۔ اس سے بڑے پیمانے آباد ی کے اند ہجرت کا خدشہ ہے دوسری جانب ہم میڈیا کی توجہ اس جانب مبذول کرنا چاہتے ہیں۔ کہ حالہ بحران پر میڈیا اپنا کردار اداکرے ۔ اس مسئلے کو الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا میں اجاگر کرے کیونکہ ابھی تک ملکی اور بین القوامی اداروں اقوام متحدہ کی ذیلی ادارو کی ط رف سے ا س بحران سے نمٹنے کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھائی گئی ہے۔ ہم حکومت بلوچستان ، اقوام متحدہ ، سماجی اداروں عالمی ڈرونز، این دی ایم اے ۔ پی ڈی ایم اے ملکی وبین القوامی امدادی تنظیموں سے اس بحران سے متاثر ہ لوگوں کوخصوصاً مالداروں کی بحالی کے لئے اقدامات کی اپیل کرتے ہیں۔ بلوچستان کی حالیہ قحط سالی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں کے مالداروں کے خصوصی پیکج کا اعلان کیاجائے اور بیمار مال مویشیوں کو زندہ رکھنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرکے ان کے لئے خوراک ، ادویات اور یکسین کا بندوبست کیاجائے ، مالداروں اور دیگر متاثرہ افراد کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے ۔